Sunday 17 February 2013

میں بھی تھا میڈیا ورکشاپ میں۔۔(حصہ دوم)
میڈیا سیل کے وزٹ اور شمس الدین امجد سے یادگار ملاقات کے بعدجب مہمان خانے کے ہال میں جہاں کراچی کے رفقاء نے ڈیرہ ڈالا ہوا تھاپہنچا تو میڈیا ورکشاپ پر تبصرہ جاری تھا ۔سلمان شیخ نے فوٹو گرافی اور اچھی ویڈیو بنانے کے گربتائے تو شاہد عباسی نے فیس بک اور ٹیوٹر کے موثر استعمال پر بڑی موثر پریزنٹیشن پیش کی،ڈاکٹر نعیم کا موضوع جماعت اسلامی فورم کا استعمال تھا،جو بہت دلچسپ اور معلوماتی تھا۔فہد کیہر اور زبیر منصوری نے بلاگنگ کی اہمیت اور اچھی تحریر پر پروگرام کیا جس کی وجہ سے میں نے بھی لکھنے کی کوشش کی ہے۔مجھے ذاتی طور پر سب سے موثر پروگرام بلاگنگ پر لگا ۔ دونوں کا اپنا اپنا انداز ،فہد کیہر کی انکساری تو زبیر منصوری کا تمام شرکاء سے پریکٹیکل کراکر کچھ اچھالکھنے پر اکسانا بہت پسند آیا۔غرض زبیر صفدر کا سوشل میڈیا کے معاشر ے پر اثرات ہو یا ڈاکٹر عبدالواسع شاکر کا سوشل میڈیا اور انتخابات پر۔ہر پروگرام لاجواب تھا تمام شرکاء اس بات پر یکسو تھے کہ ایسے پروگرامات تسلسل سے ہوتے رہنے چاہئے اور منتظمین نے اس کا اعلان بھی کیا کہ ایسی ورکشاپس منعقد ہوتی رہیں گیں۔ جماعت اسلامی کے مرکزی قائدین سید منور حسن اور لیاقت بلوچ نے جماعت اسلامی کی پالیسی او ر موجودہ حالات میں سوشل میڈیا کارکنان کے کرنے کے کام بتائے۔ شرکاء کے سوالات کے جوابات دئے الجھے خیالات کو سلجھانے میں مدددی۔ نشست ختم ہوئی اور یہ فیصلہ ہوا کہ کل دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان کھیوڑہ دیکھنے جانا ہے اس لئے جلد سونے کی کوشش کی جائے تاکہ نماز فجر کے فوراً بعد سفر پر روانہ ہوسکیں۔ منصورہ کی جامع مسجد سے آذان فجر کانوں سے ٹکرائی ،آنکھیں کھولیں تو ریاض احمد صدیقی ساتھیوں کو جگانے کے لئے آگئے مسجد میں پہنچے تو منصورہ کی جامع مسجد کا ہال بھر چکا تھا اور مسجد کا صحن بھی آدھے سے زیادہ بھر چکا تھا کیونکہ ماہانہ تربیت گاہ کا آغاز ہوچکا تھا اور بڑی تعداد میں کارکنان منصورہ پہنچ چکے تھے۔ ناشتے کے بعد کھیوڑہ جانے کیلئے گاڑی میں سوارہوگئے۔
لاہور رنگ روڈ سے موٹر وے پر جانے کیلئے جب گاڑی پہنچی تو معلوم ہوا کہ دھند ہونے کی وجہ سے موٹر وے بند ہے اس لئے آپ موٹر وے استعمال نہیں کرسکتے ۔ جی ٹی روڈ کے ذریعے سفر کرنا پڑے گا۔ غرض کسی نہ کسی طرح کھیوڑہ پہنچے ۔ کھیوڑہ نمک کی کان ضلع جہلم میں واقع ہے یہ جگہ اسلام آباد سے 160 کلومیٹر پر جبکہ لاہور سے 250کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ کھیوڑہ میں موجود نمک کی یہ کان جنوبی ایشیاء میں قدیم ترین ہے اور دنیا میں دوسرا بڑا خوردنی نمک کا ذخیرہ ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب سکندر اعظم322 ق م میں اس علاقے میں آیا تواسکے گھوڑے یہاں کے پتھر چاٹتے ہوئے دیکھے گئے ایک سپاہی نے پتھر چاٹ کر دیکھاتو اسے نمکین پایا یوں اس علاقے میں نمک کی کان دریافت ہوئی اس کے بعد یہ کان یہاں کے مقامی راجہ نے خرید لی اور قیام پاکستان تک یہ کان مقامی جنجوعہ راجوں کی ملکیت رہی۔
کھیوڑہ کی کان کا موجودہ نظام چوہدری نظام علی خان نامی افسر کا بنایا ہوا ہے یہ کان زیر زمین 110مربع کلومیٹر رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے اس میں 19منزلیں بنائی گئی ہیں۔ جن میں سے11 منزلیں زیر زمین ہیں ۔ نمک نکالتے وقت صرف 50فیصد نمک نکالا جاتا ہے بقیہ50 فیصد بطور ستون اور دیوار کان میں باقی رکھا جاتاہے کان دھانے سے 750 میٹر دور تک پہاڑ میں چلی گئی ہے اور اسکے تمام حصوں کی مجموعی لمبائی 40 کلو میٹر ہے ۔ اس کان سے سالانہ 32500 ٹن نمک حاصل کیا جاتا ہے۔ہماری گاڑی کے ڈرائیور محمدالیاس نے گائیڈ کے فرائض سر انجام دئیے۔ سیاحت کی غرض سے نمک کی اس کان میں آنے والوں کے لئے ٹرام کی سہولت موجود ہے لیکن شومئی قسمت کہ جب ہم پہنچے ٹرام کی پٹری پر کام ہورہا تھا س لئے پیدل ہی روانہ ہوگئے ۔ مختلف مناظر دیکھنے کے بعد نمک کے پتھر وں سی بنی ہوئی مسجد کے پاس جاکر تمام لوگ رک گئے اور سلمان شیخ نے فوٹو گرافی شروع کردی اور نعمان شاہ ساتھ ہوتو یہ کیسے ممکن تھا کہ کوئی نظم نہ سنی جائے اس لئے ایک نظم سنانے کی فرمائش کی گئی اور اس کو ریکارڈ بھی کیا گیا اب معلوم نہیں کہ راہ ٹی وی پر کب آتی ہے۔ کچھ نمک پارے ( نمک کے فن پارے )خریدے گئے اور واپسی کی راہ لی۔ کھیوڑہ جانے والوں کو مشورہ ہے کہ اگر آپ فن پارے خریدنا چاہتے ہیں تونمک کان کے اندر نہ خریدیں بلکہ باہر ماکیٹ سے خریدیں تو آپ کو سستے ملیں گے۔
واپسی چوآسیداں کے راستے ہوئی تو کٹاس مندر کے کھنڈرات دیکھنے کا موقع مل گیا۔ کٹاس مندر چکوال سے25 کلو میٹر دور سلسلہ کوہ نمک میں واقع ہندوؤں کا ایک مقدس مقام ہے اسے کٹاس راج بھی کہتے ہیں کٹاس تالاب ہندوؤں کے عقیدہ کے مطابق شیو دیتا کے آنسو سے بنا تھا۔ کٹاس شیوہ دیوتا کی عبادت کیلئے مخصوص تھا۔ 1947ء میں ہندوؤں کے جانے کے بعد یہ کھنڈرات کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ پاکستان نے2 کروڑ روپے اس کی حفاظت کے لئے مخصوص کئے ہیں۔
(جاری ہے
)

4 comments:

  1. بیت اعلی
    آپ تو ایک اچھے رائٹر بھی ہیں
    اللھم زد فزد
    والسلام آپکا خیراندیش
    عطاءسراجی

    ReplyDelete
  2. بہت خوب جناب۔ ورکشاپ کے مختصر احوال کے ساتھ سفرنامہ بھی تحریر کردیا آپ نے۔ اور کیا خوب تحریر کیا ہے۔ ماشاءاللہ۔

    ReplyDelete
  3. ورکشاب کا نام لے کر کان نمک کی تاریخ اور سیر کروا دی ، بڑے ثلاک ہیں آپ

    ReplyDelete