دین و دانش


بارگاہِ قدس کے مرکزِ تجلیات کعبة اللہ پر حاضری کا نام حج بیت اللہ ہے، جو دینِ اسلام کا پانچواں رکن اور اہم ترین شعائر اللہ میں شمار ہوتا ہے‘ قرآنِ حکیم کی آیات ِ کریمہ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ قیامِ عالم اور بقائے کائنات کا ذریعہ ہے‘ جب تک اللہ تعالیٰ کا یہ گھر دنیا میں باقی رہے گا‘ دنیا قائم رہے گی اور جس وقت اللہ تعالیٰ شانہ اس دنیا کو ختم کرنے کا ارادہ فرمائے گا‘ اس کعبے کو ویران کردیا جائے گا۔ٹھیک اسی طرح روحانی ہدایت کا سلسلہ بھی اسی بیت اللہ سے قائم ہے۔کعبہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا اس عالم میں عظیم ترین 
مرکز‘ رحمتِ ازلیہ کا خزانہ‘ مغفرت ورحمت کا گہوارہ اور روحانی سیر وسیاحت کرنے والوں کا ربانی مرکزِ ضیافت ‘ جہاں ہرشخص اپنی اپنی استعداد کے مطابق فیض اٹھاتا ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ شریف کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی بارگا میں عرض کیا کہ تعمیر سے فراغت ہوچکی ہے اس پر اللہ جَلَّ شانہ ¾ کی طرف سے حکم ہوا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کرو، جسکا اس آیت شریف میں ذکر ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ یااللہ میری آواز کس طرح پہنچے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آواز کا پہنچانا ہمارے ذمے ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اعلان فرمادیا جس کو آسمان و زمین کے درمیان ہر چیز نے سنا۔ آج اس بات میں کوئی اشکال نہیں رہا ایک ملک سے دوسرے ملک میں آواز پہنچ رہی ہے اسی طرح ایک دوسری حدیث میں آتا ہے اس آواز کو ہر شخص نے سنا اور لبیک کہا جسکے معنی ہے میں حاضر ہوں۔ یہی وہ لبیک ہے جس کو حاجی احرام کے بعد شروع کرتا ہے۔ جس شخص کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے حج کی سعادت لکھی تھی وہ اس آواز سے بہر مند ہوا اور لبیک کہا۔ (اتحاف)

حج بیت اللہ کا عظیم الشان اجتماع طرح طرح کی برکات کا وسیلہ بنتا ہے۔ پھر قدم قدم پر شعائر اللہ کی تقدیس وتعظیم کے جلوے‘ مقرربینِ بارگاہ کی یادگاریں‘ کہیں حجر اسود کی نورانیت کا جلوہ ‘کہیں مقامِ ابراہیم کی مقناطیسی کشش‘ کہیں صفا ومروہ وسعی کے انوار وبرکات‘ کہیں وادی عرفات کی تجلیات‘ کہیں مزدلفہ ومنیٰ کے انوار‘ غرض قدم قدم پر مغفرت ورحمت کے وعدے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ آج مادیت کے اس پ ±ر آشوب دور د میں بھی جس قلب میں ایمان کا نور موجود ہے‘ حج بیت اللہ کے لیے بے تاب ہے۔ حجاج کرام دنیاوی منافع کے تصورات‘ 
سیر وسیاحت اور تفریح کی خواہشات‘ شہرت کے رجحانات اوراسٹیٹس سمبل کی سطح سے بالاتر ہوکر اس فریضے کی ادائی کا جذبہ پیدا کریں۔

ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے قریب میری امت کے امیر لوگ تو حج محض سیرو تفریح کے ارادہ سے کریں گے (گویا لندن و پیرس کی تفریح نہ کی تو حجاز کی تفریح کرلی) اور میری امت کا متوسط طبقہ تجارت کی غرض سے حج کرے گا۔ تجارتی مال کچھ اِدھر سے لے گئے کچھ اُدھر سے لے آئے اور علماءریاوشہرت کی وجہ سے حج کریں گے (فلاں مولانا صاحب نے پانچ حج کیے دس حج کیے) اور غربا بھیک مانگنے کی غرض سے جائیں گے۔  (کنزالعمال)
مشاہدے کی بات ہے کہ بہت سے حضرات ایسے ہیں کہ حج کرنے کے بعد ان کی زندگیوں میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوتی جو بہتر علامت نہیں۔ حج مبرور کی علامت یہی ہے کہ حج کے بعد زندگی میں ایک بڑا انقلاب آجائے‘ اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق قائم ہوجائے کہ اس کی زندگی کا ہر گوشہ متاثر نظر آئے۔حج بیت اللہ ایک ایسا عمل ہے جو اللہ کے نزدیک جلیل القدر اعمال میں سے ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا :افضل ترین عمل کیا ہے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ” اللہ تعالی پر اور اس کے رسول پر ایمان لانا ” آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا : اس کے بعد؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ”۔ کہا گیا کہ اس کے بعد کونسا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ” حج مبرور و مقبول “۔ ( متفق علیہ )

حضور ا کا ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ کیلئے حج کرے اس طرح کہ اس حج میں نہ (کوئی فحش بات ہو اور نہ فسق ہو اور نہ کوئی گناہ وہ حج سے ایسا واپس ہوتا ہے جیسا اس دن تھا جس دن ماں کے پیٹ سے نکلا تھا۔ (متفق علیہ، مشکوٰة) ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا آئی ہے کہ یااللہ تو حاجی کی بھی مغفرت کر اور جس کی مغفرت کی حاجی دعا کرے اس کی بھی مغفرت فرما۔ ایک حدیث میں آیا کہ رسول اللہ ا نے تین مرتبہ یہ دعا کی۔ اس سے اور بھی زیادہ تاکید معلوم ہوتی ہے۔ حضرت عمرؓ سے نقل کیا گیا ہے کہ حاجی کی بھی اللہ کے یہاں سے مغفرت ہے اور حاجی ۰۲ ربیع الاوّل تک جس کے لئے دعائے مغفرت کرے اس کی بھی مغفرت ہے۔ (اتحاف)
قاضی عیاض رحمة اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب ”شفائ“ میں ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک جماعت سعدون خولانیؒ کے پاس آئی اور اُن سے یہ قصہ بیان کیا کہ قبیلہ کتامہ کے لوگوں نے ایک آدمی کو قتل کیا اور اس کو آگ میں جلانا چاہا، رات بھر اس پر آگ جلاتے رہے مگر آگ نے اس پر ذرا بھی اثر نہ کیا بدن ویسا ہی سفید رہا۔ سعدونؒ نے فرمایا کہ شاید اس شہید نے تین حج کیے ہوں گے۔ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں تین حج کیے ہیں سعدونؒ نے کہا مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ جس شخص نے ایک حج کیا اس نے اپنا فریضہ ادا کیا اور جس نے دوسرا حج کیا اس نے اللہ کو قرض دیا اور جو تین حج کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی کھال اور اس کے بال کو آگ پر حرام کردیتا ہے۔(شفا)
رسول اللہﷺنے فرمایا کہ نیکی والے حج (حج مقبول) کا بدلہ جنت کے سِوا کچھ نہیں (متفق علیہ مشکوٰة)
ا
پنے حج کو حج مبرور بنانے کے لیے ہرآن اتباع سنت واجتناب منہیات کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ حج کے دوران کسی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو حقیر ہرگز نہ سمجھیں،کسی بھی واجب کی ادائیگی میں کوتاہی سے بچیں ، اور ہر قسم کی نافرمانی سے خوب دامن بچا کر رکھیں ،ان اوقات اور گھڑیوں میں ہر خیر و بھلائی ، اور ہر نیکی کمانے کی بھرپور کوشش کریں،خواہ وہ ذکر و اذکار کی شکل میںہو، توبہ و استغفار کی صورت میں ہو ، تکبیر و تہلیل،تلاوت قرآن حمیدیاکسی اورشکل میں ہو،غرض یہ کہ نیک وصالح اعمال کی انجام دہی میں جد و جہد کریں ۔

کاش! ہمارے پاکستان کے حکمران‘ ان دینی حقائق اور ان سیاسی مصالح پر نظر کرتے اور قوم کی صحیح جذبے اور 
تڑپ کی قدر کرتے اور ادائے فریضہ حج کے لئے آسانیاں مہیا کرتے ۔ مانا کہ زرِ مبادلہ کا مسئلہ بہت اہم ہے اور حکومت کی مجبوریاں بھی اپنی جگہ بجا ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ حکومت کے کاندھوں پر قرضوں کا جتنا بوجھ ہے، مملکت اس کی برداشت سے عاجز آرہی ہے‘ لیکن اگر اربابِ حکومت ذرا غور فرماتے تو اس مشکل کا حل بہت آسان ہے اور بہت سی صورتیں نکل سکتی ہیں۔ جو قوم اربوں روپے کا ٹیکس دے کر حکومت کا سارا کار خانہ چلا رہی ہے اور جو حکومت فوج اور پولیس پر اربوں خرچ کرکے ملک وملت کی حدودا ورجان ومال وآبرو کی حفاظت کررہی ہے‘ اگر یہ حکومت اس قوم کے ادائے فریضہ حج کے لیے ایک کروڑ سالانہ کے زر مبادلہ کا خسارہ برداشت کرے تو کوئی بڑی بات نہیں‘ لیکن ہم باوجود اس کے اربابِ حکومت کے سامنے چند تجاویز پیش کرتے ہیں:

۱-دوسال کے لئے جدید درخواست حج نہ لی جائے‘ پہلے سابق درخواست کنندگان کو بغیر قرعہ اندازی حج کی اجازت دی جائے‘ دوسال بعد کوٹہ سسٹم ختم کردیا جائے۔
۲- جو اشیامملکتِ سعودیہ میں درکار ہیں‘ چاول‘ المونیم کے برتن‘ کورالٹھا‘ بوٹ‘ چمڑے کے تیار کردہ سوٹ کیس وغیرہ وغیرہ‘ ہرخواہش مند حاجی کو ان کے برآمدکرنے کالائسنس دیا جائے، اتنا سامان ہر حاجی کے ساتھ جانے کی اجازت ہو یا کسی تاجر کی معرفت ٹھیکا دیا جائے‘ وہاں جاکر وہ رقم اس تاجر کے ذریعہ مل جائے گی ،تفصیلات بآسانی تاجر طبقہ مرتب کرسکتا ہے‘ اس طرح حکومت زرِ مبادلہ کی پریشانی سے بھی بچ جائے گی اور فریضہ حج ادا کرنے میں حجاج کرام کو پوری سہولت بھی حاصل ہوجائے گی۔

No comments:

Post a Comment