Tuesday 8 January 2013

الوداع قاضی صاحب

عطاء الرحمن چوہان
مجاہد ملت قاضی حسین احمد رحمتہ اللہ علیہ ہمیں اکیلے چھوڑ کر اپنے محبوب سے جا ملے ہیں۔ان کی پوری زندگی اللہ کے دین کے قیام کی جدوجہدسے عبارت تھی۔ انہوں نے بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک اسی مقصد کو اپنا نصب العین بنائے رکھا۔ان کی زندگی ایک کھلی کتاب کے مانند تھی، جس پر ہزاروں صفحات لکھے جا چکے ہیں اور برسوں یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ مجھے بھی انہیں تحریک آزادی کشمیر اور جہاد افغانستان کے دوران قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ان کی نشستوں میں شریک رہا۔ ان کی تقاریر سنتا رہا،جلسہ عام، تربیتی اجتماعات، تنظیمی اجلاسوں میں انہیں قریب سے دیکھنے ، سننے اور سنانے کا موقع ملا۔ پہلی اور یادگار ملاقات خوست (افغانستان) میں ہوئی۔ نوے کی دھائی میں جب افغانستان سے روسی فوجوں کا انخلاء شروع ہوا تو اس عبرتناک پسپائی کا آغاز خوست سے ہوا تھا۔
روسی فوج کی پسپائی کے دوسرے روز مجاہدین افغانستان کے ساتھ اظہار یکجہتی اور فتح خوست پر اظہار تشکر کے پروگرام میں شرکت کے لیے میں برادر مسعود سرفراز اور عبدالقیوم فاروقی کے ہمراہ میران شاہ کے راستے افغانستان کے لیے روانہ ہوا۔ میران شاہ سے غنڈ (افغانستان کے باڈر) تک کا سفر اپنی سوزوکی وین پر کیا۔ غنڈ سے اگلی منزل تک کے لیے میران شاہ سے آنے والے ایک ٹرک کا سہارا لینا پڑا، جس پر مجاہدین کے لیے روٹیاں لوڈ تھیں۔ یہ رمضان المبار ک کا مہینہ تھا اور افطاری کا وقت بھی قریب تھا۔ غنڈ سے آگے سڑک نہیں تھی ، بس سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان ایک نالے میں ٹریک سا تھا ، جس پر فور بائی فور گاڑیاں ہی چل سکتیں تھیں وہ بھی کوئی مجاہد ہی ڈرائیو کر سکتا تھا۔ مجاہد کی ڈرائیونگ بھی کلاشنکوف فائرنگ سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔ ہم ٹرک کے اند ر روٹیوں کے بنڈلوں کی طرح لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے شام ڈھلنے کے بعد ایک ندی کے کنارے واقع خط اول (گرم محاذ ) پر پہنچے۔ مجاہدین افطار ی کے بعد نماز کی تیاری میں مصروف تھے، ہم نے ٹرک میں ہی ان سوکھی روٹیوں کے ساتھ افطاری کرلی تھی۔ کیمپ میں اترتے ہی مجاہدین نے والہانہ انداز میں استقبال کیا۔ فتح خوست کے بعد مجاہدین کے حوصلے آسمان کی بلندیوں سے باتیں کر رہے تھے۔ اس ندی کے ٹھنڈے پانی سے کیا گیا وضو ابھی تک یاد ہے۔ نماز کے بعد مجاہدین کے دسترخوان پر کھانے کا موقع ملا۔ معمولی گرم پانی میں کہیں، کہیں آلو کے ٹکڑے تیرتے ہوئے پائے، سردی کی شدت سے یہ آلو پانی جلد ہی جم گیا تھا، روٹیاں وہی جو میران شاہ سے ٹرک پر لوڈ ہو کر آئی تھیں، سردی کی شدت نے ان کی اکڑ میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔اللہ کے راستے میں جانیں نچھاور کرنے کے مشتاق یہ جوان مزے لے ، لے کر افطار ڈنر سے استفادہ کر رہے تھے۔ حیرت ہے کہ کسی کی زبان پر کوئی حرف شکایت نہ تھی۔ سب نے کھانے کے بعد اجتماعی دعاء کی پھر قہوے کا دور چلا۔ افغانی قہوہ بھی عجب ہوتا ہے۔ گرم پانی میں قہوہ ڈال دیتے ہیں ، نہ نمک، نہ مرچ اور نہ چینی۔ منہ میں گُڑ رکھ کر یہ بے ذائقہ سا پانی پیتے جاتے اور مجلس جہادی ترانوں سے گونجنے لگی۔ نماز عشاء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ عشاء کی نماز کے لیے پھر وہی ندی کا ٹھنڈا پانی، گپ اندھیرا اور جسم کے انج، انج تک سرایت کرجانے والی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہمارے منتظر تھے۔ وضو کے بعد زیر زمین غار میں قائم مسجد میں نماز عشاء ادا کی گئی۔ دن بھر کی تھکاوٹ کی وجہ سے رات گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا او رصبح ہم دیگر ساتھیوں سے ہمراہ خوست کی طرف روانہ ہوئے۔خوست شہر اور ہمارے درمیان دریا حائل تھا، جہاں سے نہ تو پیدل گزرنا اور نہ معمول کی عام گاڑیوں سے عبور کرنا ممکن تھا۔ دریا عبور کرنے کے لیے کسی معقول انتظام کے انتظار کے دوران ہی قاضی حسین احمد اور گل بدین حکمت یار صاحب کا قافلہ دریا کے کنارے پہنچ گیا۔ہم بھی اسی قافلے کے ساتھ دریا عبورکرکے قائدین کے ہمراہ خوست میں داخل ہوئے۔ ہر طرف نعرہ تکبیر … اللہ اکبر، اللہ اکبرکی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ کلاشنکوف کی فائرنگ سے پورا علاقہ گونج رہا تھا۔ کچھ دیر شہر کا گشت کرنے کے بعد قاضی صاحب کا قافلہ خوست شہر سے نکل کر کچھ بلندی پر واقع ریڈیو سٹیشن کی عمارت میں پہنچا۔ جہاں سے پورا شہر نظر آتا تھا۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ روسی طیاروں نے بمباری شروع کر دی۔ مجاہد قائدین کو سیکنڈوں میں لے کر محفوظ مقام کی طرف روانہ ہو گئے۔ شہر انسان سے بھرا ہوا تھا لیکن روسی طیاروں سے گرائے جانے و الے سارے بم کھیتوں ، جنگل اور دریا میں گرے اور اللہ کی نصرت سے سب لوگ محفوظ رہے۔ ابھی قاضی صاحب کا قافلے نے دریائے خوست عبور ہی کیا تھا کہ ایک اسٹنگر میزائل ٹھیک اس جگہ پر فائر ہوا جہاں چند لمحے پہلے قاضی حسین احمد، گل بدین حکمت یار اور ان کے رفقاء موجود تھے۔ اسٹنگر میزائل کے فائر سے آسمان تک دھواں چھا گیا۔ زمین سے آسمان تلک مٹی کا ایک ڈھیر ہی نظر آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی یہاں بھی حفاظت کی اور یہ قافلہ واپسی پر مولانا یونس خالص صاحب کی کیمپ میں رکا اور آدھ گھنٹہ تک یہاں مجاہدین کے ساتھ نشست رہی۔
اس سفر کے دوران قاضی حسین احمد صاحب نے جس بہادری اور توکل کا مظاہرہ کیا اس نے مجھے ازحد متاثر کیا۔ ان کی جرات اور بہادری کی وجہ سے دیگر احباب بھی پر عزم رہے۔ گولیوں اور میزائلوں کے درمیان قائد تحریک اسلامی کے ساتھ یہ میرا پہلا سفر تھا۔یہ رات بھی ہم نے قاضی صاحب کے ساتھ حزب اسلامی افغانستان کے ایک کیمپ میں گزاری، جس کے میزبان عالم اسلام کے عظیم مجاہد گلبدین حکمت یار تھے۔

No comments:

Post a Comment