Tuesday 8 January 2013

قوم نے قاضی حسین احمد کی بات نہیں سنی۔۔۔۔۔۔نجم ولی خان

 جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد نے اپنی بات قوم کو سنانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس قوم نے علامہ اقبال کا بہت زیادہ فہم اور اتحاد امت کی بہت زیادہ خواہش رکھنے والے رہ نما کی بات نہیں سنی، مجھے یہ بھی کہنے کی اجاز ت دیجئے کہ جب متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے قوم کے ایک حصے نے ان کی آواز پر لبیک کہا تو اس اتحاد کی ڈرائیونگ سیٹ پر مولانا فضل الرحمان بیٹھے ہوئے تھے اور تب ہمارے علمائے کرام قوم کے اعتماد پر پورے نہ اتر سکے، انہوں نے افغانستان میں قتل عام میں حصے دار بننے والے آمرمطلق کو سترہویں ترمیم کے ذریعے آئینی جائزیت عطا کر دی حالانکہ اس وقت نواب زادہ نصر اللہ خان چیخ چیخ کے اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ ایم ایم اے کے رہنما آج بھی کہتے ہیں کہ وردی اتارنے کا وعدہ لے کر انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے قلعے میں سب سے بڑی دراڑ ڈال دی تھی اور وہیں سے جمہوریت کی بحالی کا راستہ نکلا تھا مگر نہ وہ ایم ایم اے باقی رہی اور نہ ہی صوبہ سرحد کے عوام نے علمائے کرام کے ساتھ اپنی وفا مزید نبھائی، مینڈیٹ عوامی نیشنل پارٹی کے حوالے کر دیا۔
جماعت اسلامی وہ پہلی سیاسی جماعت تھی ، صحافت کے خارزار میں آنے کے بعدجس کی کوریج کی ذمہ داری مجھے ملی تھی۔سید منور حسن جماعت کے قیم جبکہ قاضی حسین احمد امیر تھے اورمیں نے انہیںکسی بھی دوسرے سیاسی رہنما سے کہیںزیادہ متحرک دیکھا۔ انہوں نے آئی جے آئی کی تشکیل کے وقت چھوٹی برائی اور بڑی برائی کا سیاسی تصور دیا مگر یہ دوستی زیادہ نبھائی نہ جا سکی۔ ایک اینکر جن کے خاندان کا جماعت اسلامی سے بہت زیادہ تعلق رہا ہے، نواز شریف، شہباز شریف اور ان کے والد میاں شریف سے ان کے بہت زیادہ تعلق بارے گواہی دے رہے تھے، میں سمجھتا ہوں کہ ہم تاریخ لکھ رہے ہیں اور اسے بہرحال درست ہی لکھنا چاہیے۔ قاضی حسین احمد نے بہت زیادہ کوشش کی کہ قوم پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کو مسترد کرتے ہوئے ان کی بات سنے، مسلم لیگ نون سے راستے الگ ہوئے تو عمران خان کی طرح قاضی حسین احمد کا بھی یہی خیال تھا کہ وہ نواز شریف سے معتدل اسلام پسند ووٹ چھین سکتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نواز شریف کے نئے نئے بننے والے رائے ونڈ فارم کے باہر اڈہ پلاٹ پر انہوں نے ایک جلسہ بھی کیا کہ شریف برادران قوم کی دولت سے ایسے محل بنا رہے ہیں جہاں بگھیوں پر سفر ہوتے اور مور ناچتے ہیں، جس کے بعد نواز شریف نے اپنے گھر کے دروازے صحافیوں کے لئے کھول دئیے، شہباز شریف بھی ایک ایک کمرہ دکھاتے پھرے، نواز شریف وزیراعظم ہوتے ہوئے خواہاں ہوئے کہ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ سے خطاب کر کے قاضی حسین احمد کے خلاف اپنا مقدمہ پیش کر کے جماعت میں بغاوت کروا سکیں،جب دل اور راستے الگ ہوئے تو دوبارہ نہیںمل سکے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک اخبار کے مالک ایڈیٹر کے ہمراہ میںمنصورہ گیا تو قاضی حسین احمد نے کھانے کی میز پر خود کہا کہ قوم ان کی بات نہیں سن رہی، وہ آزمائے ہوو¿ں کو آزمانا، کرپٹ لوگوں کو اختیار دینا جبکہ نیک لوگوں کو مسجد وں تک ہی محدود رکھنا چاہتی ہے مگر اس کے باوجود انہوں نے ہمت ہاری اور نہ ہی کوشش چھوڑی۔ عتیق سٹیڈیم میں دھوم دھڑکے کے ساتھ پاکستان اسلامک فرنٹ بنا، قاضی صاحب چاہتے تھے کہ جماعت اسلامی کے دروازے مومنین ہی نہیں عام مسلمانوں کے لئے بھی کھل جائیں، وہ مسلما ن جو کرپٹ نہیں، بدنام نہیں، جن کے ماتھوں اورٹخنوں پرنمازوں کے نشان اور چہروں پر لمبی لمبی داڑھیاں نہیں۔ بلاشبہ انہوں نے بہت سارے ایسے مسلمانوں کو اپنے ساتھ بھی ملایا ، آج کے علامہ طاہر القادری اور الطاف حسین جیسے انقلابیوں سے کہیں بہتر پروگرام اور ” ظالمو! قاضی آرہا ہے“ جیسا زبردست نعرہ بھی دیا، باریش اور صالح نوجوان منصورہ کی مسجد سے کرباٹھ کے اس گاو¿ں تک بے خود ہو کے نعرے بھی لگاتے رہے کہ ہم بیٹے کس کے قاضی کے، ہم بازو کس کے قاضی کے، مگر یہ اسلامک فرنٹ بھی ناکا م ہو گیا۔ قوم دو جماعتی نظام پر ہی ڈٹی رہی جسے آج تک ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
میں نے قاضی حسین احمد کو دل کے تین بائی پاس آپریشن ہونے کے باوجود ہمیشہ جوش اور جذبے سے بھرا ہوا دیکھا، انور نیازی صاحب کی مہربانی سے قاضی صاحبکے ہمراہ ان کے حلقہ انتخاب دیر اورمینگورہ کے دورے بھی کئے، اسلام آباد میں دھرنے جیسی سیاسی پیش رفت کے دوران زندگی کی سب سے بدترین آنسو گیس بھی کھائی، ٹرین مارچ میں ان کے ساتھ بہاولپور کے سفر سمیت بہت سارے موقعوں پر ون ٹو ون تبادلہ خیال کا بھی موقع ملا۔ سیاست میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکنے کے باوجود ان کی اتحاد امت کے لئے کوششیں بلاشبہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ علامہ شاہ احمد نورانی کے ساتھ مل کر انہوں نے ملی یکجہتی کونسل کی بنیاد رکھی تو میاں منظور وٹو کی وزارت اعلیٰ کے دوران وہ دور بدترین فرقہ واریت کا تھا،شیعہ سنیوںکو اور سنی شیعوں کو بے دریغ قتل کر رہے تھے کہ قاضی حسین احمد کی کوششوں سے ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے علامہ شاہ احمد نورانی جیسے بریلوی، مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق جیسے دیوبندی،ساجد میر جیسے اہل حدیث اورساجد نقوی جیسے اہل تشیع باجماعت نماز پڑھنے لگے۔ افغانستان پر امریکی حملہ ہوا تو ملی یکجہتی کونسل نے دفاع افغانستان کونسل کی شکل اختیار کرلی۔ لاہور کی مال روڈ نے ایسے ایسے جلسے اور ریلیاں دیکھیں کہ دوبارہ ان کی نظیر نہیںملی۔ آخر میں دفاع افغانستان کونسل نے متحدہ مجلس عمل کی شکل اختیار کر لی اور بات وہیں پر آپہنچی جہاں سے میں نے اس تحریر کا آغاز کیا تھا۔
قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کی امارت باقاعدہ انتخاب کے بعد جنرل سیکرٹری سید منور حسن کے حوالے کر دی،اس کے بعد بھی کئی موقعوں پر ان سے ملاقات ہوئی، خاص طور پر لیاقت بلوچ صاحب کی والدہ کے انتقال کے موقعے پر ان کی تقریر ملت کے لئے درد سے بھری ہوئی تھی، وہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر مسلمانوں کو ایک دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ علامہ اقبال کی فکر و فلسفے کے شیدائی اور مبلغ تھے۔ وہ اب اپنے آخری وقت تک ، علالت کے باوجوداپنی سیاسی وابستگی سے بالاترہو کے دو بڑی دینی جماعتوں جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے اتحاد کے لئے کوشاں تھے۔ وہ اچھے خاصے کھاتے پیتے کاروباری آدمی تھے، مجھے پشاور میں ان کی رہائش گاہ جانے کا بھی اتفاق ہوا مگر وہ منصورہ میں واقعی دو کمروں کے عام سے مکان میں رہا کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ قوم مال اور اختیارکے لئے سیاست کرنے والوں کی بجائے اسلام اور پاکستان کے لئے سیاست کرنے والوں کا انتخاب کرے مگر قوم نے ان کی آواز پر کان نہیں دھرے ۔ کیا قاضی حسین احمد سے زیادہ پکا اور سچا مسلمان آج کے دور میں پیش کیا جا سکتا ہے جو اقبال کے مرد مومن اور مرد مجاہد کی طرح کفر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ہو مگر اس کے باوجود انہوں نے جمہوریت کاراستہ نہیں چھوڑا۔ انہوں نے عمران خان کی تحریک انصاف کے ساتھ مل کے پچھلے عام انتخابات کا بائےکاٹ ضرور کیا اور ان کا خیال تھا کہ اگر نواز شریف سمیت دیگر سیاسی جماعتیں بھی انتخابات سے باہر رہیں تو پرویز مشرف کے لئے مشکلات بڑھائی جا سکتی تھیں مگرمسلم لیگ نون کے انتخابات میں جانے کے بعد یہ فیصلہ غلط ثابت ہو گیا۔ آج ہم جمع تفریق کرتے ہوئے ان کی بہت ساری چیزوں سے اتفاق اور اختلاف کر سکتے ہیں جیسے جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل محمد نے جماعت اسلامی کی روایات کے برعکس ایک انٹرویو میں قاضی آ رہا ہے جیسی حکمت عملی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ قاضی حسین احمد تو بھٹو کو بھی پیچھے چھوڑ گئے مگر مجھے یہاں صرف اتنا کہنا ہے کہ انہوں نے مخلصین اور مومنین کی جماعت کے دروازے عام مسلمانوں پر کھولنے کی کوشش کی اور سید منور حسن جماعت اسلامی کو واپس وہیں لے گئے ہیں جہاں وہ قاضی حسین احمد سے پہلے کھڑی تھی۔ شائد اس قوم کی قسمت میں ہی نہیں تھا کہ کوئی درویش صفت رہنما ان کے بھرپور اعتماد کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ سکے۔ اقتدار کے ایوان کرگسوں سے بھرے رہے اور ایک شاہین اپنی پرواز مکمل کر کے ابدی نیند سو گیا ۔۔۔ حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا !!!

No comments:

Post a Comment