Thursday 13 December 2012

سقوط ڈھاکہ۔۔۔چند اہم سوالات



سقوطِ ڈھاکا… چند اہم سوالات
مسعود انور
16 16دسمبر کی آمدآمد ہے۔ یہ تاریخ اہلِ پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہے کیونکہ اسی روز سقوطِ ڈھاکا کا سانحہ پیش آیا تھا۔ سقوطِ ڈھاکا یا بنگلہ دیش کا قیام محض اتنی سی بات نہیں ہے کہ اُس روز پاکستان کے ایک ٹکڑے میں مقیم افراد نے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، اور اس روز ایک نیا ملک دنیا کے نقشے پر ابھر آیا۔ بلکہ یہ سازشوں، الزامات اور خون سے تربتر ایک ایسی داستان ہے جس کے بارے میں جتنا بھی غور و فکر کریں حیرت سے زیادہ شرم محسوس ہوتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں سما جائیں۔ یہ غیروں کی چال بازیوں سے زیادہ اپنوں کی بے التفاتی کی داستان ہے۔
وہ لوگ جنہوں نے پاک وطن کی خاطر اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کی کیا قیمت ہوگی، انہوں نے دیوانہ وار نہ صرف یہ نعرہ لگایا بلکہ اس کی بھرپور قیمت بھی ادا کی۔ اپنی جان سے بھی، املاک سے بھی اور عزت و آبرو سے بھی۔ مگر سکون کے ساتھ میدانِ جنگ سے دور بسنے والے بقیہ پاکستان کے مکینوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ وہ سب اپنے ہی وطن میں اجنبی ٹھیرے، ان کو ہیرو کا درجہ دینے کے بجائے ان کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا کہ وطن کی محبت گالی ٹھیری۔ عملاً بتادیا گیا کہ آئندہ جو بھی وطن پر نثار ہونے کا سوچے، یہ خیال ذہن میں رکھے کہ یہ ساری قربانیاں الٹا اس کو وطن میں معتوب بنادیں گی۔
سقوطِ ڈھاکا کوئی کل کی بات نہیں ہے۔ اس سانحے کو چار عشرے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی اب تک ہم یہ نہیں جان سکے کہ اصل میں یہ سازش کیا تھی، اس میں غیروں کا کیا کردار تھا اور اپنوں کی کیا کارگزاری تھی، آخر یہ سب کیسے ممکن ہوگیا؟؟؟ اس بارے میں اب تک ہم بنیادی سوالات ہی ترتیب نہیں دے پائے چہ جائیکہ ان کے جوابات۔ گو کہ اس موضوع پر اب تک بے شمار کتب شائع ہوچکی ہیں۔ ان میں سے اب تک جتنی بھی مطالعہ میں آسکیں وہ کہیں سے بھی بنیادی سوالات کا احاطہ نہیں کرتیں۔ تاہم اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے زیراہتمام شائع ہونے والی کتاب ’’شکستِ آرزو‘‘ ان سب سے یکسر مختلف ہے۔ اس کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین ہیں۔ ڈاکٹر سجاد حسین مرحوم مشرقی پاکستان کی معروف ترین ڈھاکا یونیورسٹی کے آخری وائس چانسلر تھے۔ ان کی گواہی اس لیے اور بھی زیادہ معتبر ہوجاتی ہے کہ ان کا تعلق بنگال کے معروف خاندان سے تھا۔ بنگال کا سپوت ہونے کے باوجود ان کو بھی اسی ابتلاء و آزمائش سے گرزنا پڑا جس سے وہ سارے افراد گزرے جو پاکستان سے محبت رکھتے تھے۔ چاہے انہوں نے زندگی کے کسی بھی لمحہ میں ہتھیار اٹھائے ہوں یا نہ اٹھائے ہوں مگر ان کو اپنے خیالات کا بھی خمیازہ بھگتنا پڑا۔
مذکورہ کتاب ’’شکستِ آرزو‘‘ کی سب سے بڑی خوبی ہی یہ ہے کہ اس میں وہ بنیادی سوالات اٹھائے گئے ہیں جو اس سے قبل کہیں پر نہیں اٹھائے گئے۔ سب سے پہلے اس کتاب سے چند سوالات اور پھر اس کے بعد اس سازش کے بارے میں گفتگو۔
پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ چونکہ یہ کتاب جیل میں لکھی گئی جس میں وہ جنگی قیدی یا غدار کے درجے پر تھے اور بے یقینی کی کیفیت تھی اس لیے وہ تفصیل کے ساتھ 25 مارچ 1971ء کے فوجی کریک ڈاؤن اور ذوالفقار علی بھٹو کے کردار پر پوری تفصیل سے روشنی نہ ڈال سکے اور وہ یہ بھی نہیں بتا پائے کہ اس کریک ڈاؤن کی نوعیت کیا تھی۔ تاہم انہوں نے ایک نکتہ ضرور اٹھایا ہے کہ پاکستانی فوج نے دسمبر 1970ء سے 25 مارچ 1971ء تک علیحدگی کی تحریک کو کچلنے کے لیے کوئی بھی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ اور پھر یہ اچانک حرکت میں کیوں آگئی؟ جبکہ اس کریک ڈاؤن کے مؤثر ہونے کا خود اسے بھی کم یقین تھا۔
وہ انکشاف کرتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے ہندوؤں نے شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں چلائی جانے والی بنگالی قوم پرستی کی تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی سوال کرتے ہیںکہ کیوں؟ ڈاکٹر سجاد یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر مشرقی پاکستان کے بنگالی بولنے والوں نے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا تو پھر پاکستان ہی نہیں، بھارت کو بھی متحدہ ریاست کی حیثیت سے باقی رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ وہ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ اگر بنگالی ہندو مغربی بنگال میں پنجابی سکھوں اور ہندوؤں کے ساتھ رہ سکتے ہیں تو مشرقی اور مغربی پاکستان کے مسلمانوں کی متحدہ ریاست پر اعتراض کیوں؟
ڈاکٹر سجاد اپنی کتاب کے پہلے ہی باب میں انکشاف کرتے ہیں کہ مکتی باہنی کی قید کے دوران ایک نوجوان نے ان کے سامنے انکشاف کیا کہ پاکستانی فوج کا ہتھیار ڈالنا ان کے لیے بھی حیرت انگیز تھا، کیوںکہ مکتی باہنی کے لیڈر اور بیشتر کارکن تو لڑتے لڑتے ہمت ہار چکے تھے اور فتح کا خیال بھی دل سے نکال چکے تھے۔
سقوطِ مشرقی پاکستان بھی ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازش کا ایک حصہ ہے۔ اس سازش پر مزید گفتگو اگلے کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔

No comments:

Post a Comment