Thursday 13 December 2012

سقوط ڈھاکہ ، منظر پس منظر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حسن امام صدیقی

سقوط ڈھاکا ، منظر پس منظر      
حسن امام صدیقی
23؍مارچ 1940ء کو قرارداد لاہور’’قرارداد پاکستان‘‘ کی شکل میں منظور ہونے کے بعدمسلم لیگ اور کانگریس کے حامیوں میں تصادم شروع ہوگیا۔ ہندوستان کے اندر ایک نئی ’’مسلم ریاست‘‘ کے مسلم لیگ کے مطالبہ کو کانگریسی مسلمان زعماء مولانا ابولکلام آزاد، رفیع احمد قدوائی، آصف علی ، فخرالدین، علی احمد وغیرہ اور صوبہ سرحد میں خان عبدالغفار خان نے بھی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ قیام پاکستان کے بعد خان عبدالغفار خان  نے صوبہ سرحد میں  5؍ مارچ1948ء کو ایک تقریب میں ’’قیام پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم غلط تھی‘‘ کا اظہار کیا۔ قیام پاکستان کے مطالبہ نے پورے ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے۔ موہن لال کرم چند گاندھی نے ’’عدم تشدد‘‘ کی تحریک شروع کردی ساتھ ہی ساتھ کہا کہ ہندوستان کو تقسیم کرنے سے پہلے میرے جسم کو دوٹکڑوں میں تقسیم کرنا ہوگا۔ قائد اعظم کی بے مثال قیادت نے مسلم لیگ کے پرچم تلے مسلمانوں کو متحد رکھا۔ لاکھوں مسلمانوں کی شہادت کے بعد 14؍ اگست 1947ء کو قیام پاکستان عمل میں آیا۔ ہندو رہنمائوں نے ذہنی طور پر ہندوستان کے بٹوارہ کو قبول نہیں کیا اور اول دن سے ہی وہ اس کی مخالفت اور سازش میں لگے رہے۔ مشرقی پاکستان میں ہندوئوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی اور معیشت ان کے ہاتھ میں تھی اور انہیں اہم مقام حاصل تھا۔ سستی کتابیں کلکتہ سے پرنٹ ہوکر آتی تھیں جس میں ہندو مذہبی عقائد کو بنگلہ زبان میں کہانیوںکا نام دے کر نصاب و دیگر کتابوں میں شامل کردیا جاتا تھا۔
نومبر 1950ء میں ’’گرانڈ نیشنل کانفرنس‘‘ کا انعقاد ڈھاکا میں ہوا۔ جس میں یہ تجویز کیا گیا کہ
ــ’’مملکت کا نام‘‘ یونائیٹڈ اسٹیٹس آف پاکستان‘‘  اور سرکاری زبان اردو اور بنگلہ ہوگی۔ بنگالی طالب علموں نے اس کے نفاذ کے لیے تحریک کی ابتداء ’’ایکشن کمیٹی‘‘ کے قیام سے کی۔ اردو کے مخالف نہیں تھے بلکہ بنگلہ زبان کو بھی قومی زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کررہے تھے۔ اس وقت عزیز احمد چیف سیکریٹری مشرقی پاکستان تھے۔ بعد ازاں ’’یوتھ لیگ‘‘ نے 1951ء میں ’’Language movement‘‘ کی تحریک میں پوری شدت سے مشرقی پاکستان کی مکمل خود مختاری کا مطالبہ کیا۔ بنگالی زبان  کے شاعروں، ادیبوں، دانشوروں’’ رابیندرا ناتھ ٹھاکر(ٹیگور) ’’Rabindra Nath Thakur‘‘  (ہندوستان) قاضی نذرالسلام کَوی جسم الدین وغیرہ کی سالگرہ اور برسی کے موقع پر مختلف پروگرام ترتیب دینے کا آغاز کردیا۔
21؍ فروری 1952ء کو ڈھاکہ میں صوبائی اسمبلی کے کا اجلاس کے دوران ’’یوتھ لیگ‘‘ نے اسمبلی کا گھیرائو کرکے زبردست پُرتشدد احتجاج کیا۔ احتجاج کو روکنے کے لے پولیس نے گولی چلادی جس کے نتیجے میں کئی طلباء ہلاک ہوگئے اور پولیس والے بھی زخمی ہوئے۔ اس وقت قائم مقام ڈسٹرک مجسٹریٹ کیپٹن ریٹائر ڈ ایس ۔ ایچ  قریشی تھے۔ انہیں اس واقعہ کے بعد فوراً  ہٹادیا گیا اورحسین حیدر کو ڈسٹرک مجسٹریٹ کا چارج دے دیا گیا۔
اس دوران کیپٹن ریٹائرڈ مسعود محمود کو قائم مقام سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کا چارج د یا گیا تاکہ وہ مخدوش حالات کو کنٹرول کرسکیں۔ وہی مسعودمحمود جنہیں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے فیڈرل سیکورٹی فورس کا ڈائریکٹر جنرل بنا یااور بعدازاں وہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں بھٹو صاحب کے خلاف سرکاری گواہ بنے۔مشرقی پاکستان میں مقیم اردو زبان کے شاعروں ادیبوں، دانشوروں ڈاکٹر یوسف حسن ،عارف ہوشیار پوری، صلاح الدین محمد، مسعود کلیم، اخترپیامی، اختر حیدرآبادی، ادیب سہیل، خواجہ محمد علی ، بدر الدین احمد، پریز احمد حسن سید، ابو سعید خان،زین العابدین، نوشاد نوری ، سرور بارہ بنکوی،با نوراختر، اُمِ ّآمارہ، انور فریاد سمیت دیگر زعماء نے اخبارات ، مذاکرہ ، مراسلات اور عملی جدوجہد کے ذریعہ احتجاج میں شامل ہوگئے اور مطالبہ کیا کہ بنگلہ کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے ۔ جس کے نیتجہ میں ڈاکٹر یوسف حسین جو کہ ’’ راشٹر و بھاشہ سنگرام بریشد‘‘ (Rashtro Bhasha Sangram Porishod) کے بانی اراکین میں سے تھے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان کا جرم بنگلا زبان کی تحریک میں ساتھ دینا تھا۔ حالانکہ ان کا تعلق اردو داں سے تھا۔ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے 9؍ فروری 1954ء کو ایک بل پاس کیا جس کے نیتجہ میں اردو اور بنگلہ دونوں مملکت کی زبان ہوگی۔ 1956ء آئین پاکستان میں بنگلا اور اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔ 1962ء میں نیا آئین پاکستان تشکیل دیا گیا جس میں اردو اور بنگلا دونوں کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔’’برھمنی سیاست ‘‘کے جال کے اندر مسلمان بنگالی پوری طرح پھنس گئے تھے۔ ہندو ماڑواڑی اورٹیچروں نے زبان اور کلچر کو تقسیم کیا۔ صوبائی جنرل الیکشن کا انعقاد 1954ء میں ہوا۔ بانی پاکستان جماعت مسلم لیگ کے مقابلے میں یونائیٹڈ فرنٹ(United Front) کا قیام عمل میں آیا جس میں عوامی لیگ، کریشک سرامک پارٹی،(Krishak Saramik Party) جناتن تاری ڈل(Ganatan tari Dal) نظام اسلام پارٹی شامل تھی۔ انہوں نے اے۔ کے فضل الحق ، حسن شہید سہروردی، مولانا عبدالحمید خان بھاشانی، کی متحدہ قیادت میںانتخاب میں حصہ لیا۔ صوبائی اسمبلی 273 نشست میں مسلم لیگ کو صرف 9 سیٹیں ملیں۔ مسلم لیگ کے وزیر اعلیٰ نورالامین سمیت سب کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ’’یونائیٹڈ فرنٹ‘‘ نے بے مثال کا میابی کے بعد وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ صوبے کو مکمل خود مختاری دی جائے۔ وفاق صرف ڈیفینس، خارجہ اور کرنسی اپنے پاس رکھے۔ نیول ہیڈ کوارٹر’’Nevel head Quarter‘‘  مشرقی پاکستان میں ہو۔
’’یونائیٹڈ فرنٹ‘‘ کے 21 نکات نے مشرقی پاکستان میں بنگالی قومیت کے نظریات کو مضبوط کیا۔ ’’یونائیٹڈ فرنٹ‘‘ کی پہلی گورنمنٹ کی تشکیل 21 نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے 1940ء کی قرارداد لاہور کو عملی جامہ پہنچانے کے اقدامات کی ابتدا کردی اور مطالبہ کیا کہ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں جو بنگالی ممبر منتخب ہوئے ہیں وہ استعفیٰ دیں کیونکہ ان کی نمائندگی مشرقی پاکستان کی پچھلی اسمبلی سے ہے۔
’’یونائیٹڈ فرنٹ‘‘ کے لیڈر فضل الحق نے ایک موقع پر اعلان کیا کہ ہمارا آخری گول مشرقی پاکستان کی آزادی ہے۔ آدم جی جوٹ ملز کرنا فلی پیپر مل Karana Fuly Paper Mills اور دیگر علاقوں میں لسانی فسادات شروع ہوگئے۔ بڑی تعداد میں غیر بنگالیوں کا قتل عام ہوا۔ مرکزی حکومت نے مشرقی پاکستان کے مختلف علاقوں میں حالات کی خرابی کو جواز بنا کر حکومت توڑ کر گورنر راج نافذ کردیا۔ 23؍مارچ1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نیا آئین تشکیل ہوا۔ اس کے بعد ملک انتخابی عمل سے گزرا۔ لیکن 8؍اکتوبر1958ء اور عوام کے بنیادی حقوق سلب کردیے گئے۔ جنرل محمد ایوب خان نے ملک مین مارشل لاء لگادیا۔ بعد ازان نومبر 1959ء بنیادی جمہوریت (Basic Democracy) المعروف بی۔ڈی سسٹم کا نظام نافذ کیا۔ بی ڈی ممبرنے ایوب خان کو صدر پاکستان منتخب کیا۔
17؍ دسمبر 1962ء کو ڈھاکامیں طلباء نے جمہوریت کی بحالی کے لیے مظاہرہ، جلوس اور جلسے کا انعقاد کرنا شروع کردیا۔ حکومت نے حالات کو سنبھال نے کے لیے آرمی طلب کی۔ کشمیر میں حضرت درگاہ بل کی مسجد سے موئے مبارک کی چوری کے اعلان  کے بعد مشرقی پاکستان میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے۔ امن و عامہ کی صورتحال نہایت سنگین تھی۔ مسلمان بنگالی اور ہندو بنگالی اس موقع پر ایک ہوگئے ان کا کہنا تھا کہ ہماری زبان اور ہمارا کلچر ایک ہے اور یہ باہر سے آنے والوں نے ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کیا ہے۔ ہندو دراصل قیام پاکستان کا بدلا چکانا چاہتا تھا۔ اس نے اب تک ملک کا بٹوارہ اور دو قومی نظریہ تسلیم نہیں کیا تھا۔ ہندو ٹیچروں کی بہت بڑی تعداد تھی۔ ہندوئوں کے مذہبی تہوار دیوی۔ دیوتائوں، درگا مائی درگاپوجا، کالی مائی کا تہوار بنگالی مسلمان بھی بڑے اہتمام اور خوشی سے مناتے تھے اور شریک ہوتے تھے۔ 1965کے کم بائینڈ اپوزیشن پارٹی Combined  Oppositon Party  (COP)نے صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابلے میں نامزد کردیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام مس فاطمہ جناح کے ساتھ تھے چونکہ ووٹر صرف B.Dممبر تھا اور وہ حکمرانوں کے ساتھ تھے۔ B.Dممبران ووٹرز کی تعداد 8ہزار تھی۔ 47فیصد بی ۔ ڈی ممبران نے مشرقی پاکستان میں فاطمہ جناح کو ووٹ دیا جبکہ 27فیصد ممبران نے مغربی پاکستان میں فاطمہ جناح کو ووٹ دیا۔ اس طرح ایوب خان جیت گیا۔ COPمیں شامل جماعتوں کے اپنے علیحدہ علیحدہ ایجنڈے تھے۔ عوامی لیگ کا بنگالی قومیت کا پروگرام، نیشنل عوامی پارٹی سوشل اور معاشی مساوات جبکہ مذہبی جماعتیں اسلامی نظام حکومت جبکہ مسلم لیگ نے نظریہ پاکستان ، پاکستانی نیشنلزم کا پروگرام تھا۔
( جاری ہے)


No comments:

Post a Comment