Thursday 4 October 2012

تبدیلی کیسے آئے گی


تبدیلی کیسے آئے  گی
سید منور حسن( امیر جماعت اسلامی پاکستان)
پاکستان میں ایک طویل آمریت کے بعد فروری 2008ء میں انتخابات ہوئے تو لوگوں نے بجا طور پر یہ توقعات قائم کیں کہ حالات سدھریں گے، مواقع بڑھیں گے اور معاشرے میں سلگتے ہوئے مسائل کے جنگل سے نجات ملے گی۔ لیکن ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘۔ پانچ سال ہونے کو آئے ہیں،کوئی وعدہ ایسا نہیں جو وفا ہوتا نظر آئے، کوئی دعویٰ ایسا نہیں جس کی قلعی کھل نہ گئی ہو، اور کوئی امید ایسی نہیں جو یاس میں تبدیل نہ ہوگئی ہو۔ پچھلے پانچ سال میں جو کچھ ہوا، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ وہی چال بے ڈھنگی، وہی ایڈہاک ازم، لوٹ مار کے نت نئے طریقے اور عوام کی خدمت سے عاری رویّے اور منصوبے۔ زندگی کے تمام دائروں میں جس درجے لاقانونیت نظر آتی اور دکھائی دیتی ہے، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے روزافزوں واقعات جس طرح خوف اور دہشت کی فضا پیدا کرتے ہیں، آفرین ہے کہ عوام نے تو اس صورت ِحال کا جرأت و بہادری اور مصمم ارادے سے مقابلہ کیا ہے، ملک کی تعمیرِنو میں بھی دلچسپی کا اظہار کیا ہے، قومی یک جہتی کو بھی پارہ پارہ ہونے سے بچایا ہے اور حکمرانوں کو بھی مسلسل آئینہ دکھایا ہے، لیکن خود حکمران جس طرح امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں، اسی سے ڈکٹیشن لیتے ہیں، اس کے کہے پرعمل کرتے ہیں، اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور اسی سے اپنی پالیسی اور ترجیحات کا تعین کراتے ہیں، اس نے پاکستان کو غلامی کی بدترین صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔
پیپلزپارٹی اور اتحادیوں کی حکومت کا اصل سلوگن جمہوری حکومت ہونا رہا ہے، مگر جو حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نہ مانتی ہو اور پارلیمنٹ کے فیصلوں اور قراردادوں کو رتی برابر اہمیت نہ دیتی ہو، وہ کس منہ سے اپنے آپ کو جمہوری حکومت کہہ سکتی ہے؟ غیر جمہوری رویوں اور طور طریقوں کو اپناکر جمہوریت کا لیبل لگانا    ؎
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے
کے مترادف ہے۔ حکومتی سطح پر اداروں کو باہم متصادم کرنے کی روش معاشرے کی چولیں ڈھیلی کردیتی ہے، معاشرے کی پہچان گم ہوجاتی ہے، اس کا تشخص گہنا جاتا ہے اور معاشرہ اپنی اقدار سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یہ سب کچھ اِس وقت زندگی کے تمام دائروں میں دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ پرویزمشرف کی طرح عوامی نمائندہ ہونے کی دعوے دار یہ اتحادی حکومت بھی عوام کے دکھوں میں اضافے کا سبب بنی ہے اور زخموں کو پھایا بھی میسر نہیں ہے۔ اتحادی جماعتوں نے مرکز اور صوبوں میں عوام کو مایوس کیا ہے۔ ان سب کی عدم کارکردگی اور بری طرزِ حکمرانی کی وجہ سے لوگوں کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ ان سب کا ویژن اور اپروچ الگ الگ ہے مگر اپنے اپنے مفادات اور وقتی اور عارضی طور پر اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے جمع ہوگئے ہیں۔
بلوچستان اور کراچی کے حالات میں ایک درجہ مماثلت بھی پائی جاتی ہے اور عمومی طور پر اپنے اپنے حالات اور اپنے اپنے دکھوں کی دنیا بھی آباد ہے۔ بلوچستان کو جس احساسِ محرومی نے آگھیرا ہے، اس کا مداوا احساسِ شرکت سے ہی کیا جاسکتاہے، محض زبانی جمع خرچ سے نہیں۔  بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا اور وسائل سے مالامال صوبہ ہے۔ اپنے وسائل میں سے اگر وہ اپنا حق طلب کرتے ہیں تو امانت و دیانت اور حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ اس مطالبے کو تسلیم کیا جائے اور وہاں کے وسائل کو وہاں کے مفلوک الحال عوام پر خرچ کیا جائے۔ ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے بھی کوئی کام نہ کیا، اور کسی کو علم نہیں کہ ایک سو ارب روپے سے زیادہ جو بلوچستان کے عوام کے لیے دیے گئے ہیں، وہ کہاں گئے؟ صوبائی کابینہ میں تمام پارٹیاں شریک ہیں، تمام ایم پی اے وزیر بنے ہوئے ہیں اور اپنے لیے دونوں ہاتھوں سے وسائل اور مراعات اکٹھی کررہے ہیں، لیکن بلوچوں کو انھوں نے محرومیوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔
کراچی کی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے حوالے سے حکومتِ سندھ میں شریک تینوں پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام لگاتی ہیں اور ایک دوسرے کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھیراتی ہیں، اور جب وہ ایسا کہہ رہی ہوتی ہیں تو سچ بول رہی ہوتی ہیں۔ سندھ کی صوبائی حکومت چوری اور بھتہ خوری کے مشترکہ نکتے پر قائم ہے، اور یہ بات زبان زد عام ہے کہ صوبے کی حکومت پس پردہ ہاتھوں میں ہے۔ وزیراعلی کی حیثیت محض نمائشی ہے۔ صوبہ سندھ میں یہ ٹرائیکا جس کی حکومت وہاں پر قائم ہے، ان تمام مسائل، مصائب اور حالات کی خرابی کا ذمہ دار ہے۔
خیبر پختون خوا کی صورت حال بھی ابتری سے دوچار ہے۔ صوبائی حکومت نے عوامی خزانے کی لوٹ مار کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جسے تین تین مرتبہ ہجرت پر مجبور کیا گیا ہے، گھر سے بے گھر اور لاوارث بناکر چھوڑ دیا گیا ہے۔ لاتعداد اسکول اور ہسپتال ہیں جو دہشت گردی کی نذر ہوگئے ہیں اور بین السطور یہ بات کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ سوات جیسے ضلع میں تمام اسکولوں کو اگر بھک سے اڑا دیا گیا تو یہ سارے واقعات کرفیو کے دوران پیش آئے۔ لوگوں نے اپنے سر کی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھا اور ان گواہوں کی ایک بڑی تعداد ان تمام علاقوں میں موجود ہے جہاں لوگوں کو ان ضروریات سے محروم کرکے عنوان یہ دیا گیا کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے فوجی آپریشن ہورہا ہے۔
پنجاب حکومت کے پاس اتنے وسائل تھے اور اتنی دانش و بینش اسے میسر تھی کہ اگر وہ لوڈشیڈنگ کے بارے میں مرکزی حکومت سے کامل بے اعتنائی برتتے ہوئے اسے کم کرنے یا کنٹرول کرنے کے اقدامات کرتی اور اس کی گنجائش موجود تھی تو یقینی طور پر یہ ایک بڑا کارنامہ ہوتا، لیکن اس نے بھی سوائے مرکز کو چارج شیٹ کرنے کے کچھ نہ کیا اور اپنے فرائض کی ادائیگی سے پہلوتہی کرتے ہوئے عوام کے دکھوں میں کوئی کمی نہیں کی۔ اسی لیے پنجاب بالخصوص لاہور لوڈشیڈنگ کے سب سے بڑے مراکز کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ مصنوعی اور نمائشی اقدامات، دکھاوے کے عنوانات تو بہت سجائے گئے لیکن حقیقی طور پر مہنگائی کو ختم کرنے اور بے روزگاری کوکم کرنے کے جو منصوبے اور اقدامات ہوسکتے تھے، وہ سامنے نہیں آسکے۔ اور یہی معاملہ کم و بیش لا اینڈ آرڈر کی صورت حال کا نظر آیا۔
اس پورے پس منظر میں جو پہلے پرویزمشرف اور اس کی حکمرانی کے دور میں اور پھر آصف زرداری اور اتحادی حکومت کی خراب کارکردگی کی وجہ سے اس انتہا کو پہنچا ہے، ملک میں انتخابات کا غلغلہ بلند ہورہا ہے۔ حکمران جماعت اپنی مدت پوری کرنے کے قریب تر ہورہی ہے اور انتخابات امید کی کرن کی حیثیت سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرتے جارہے ہیں۔ اگرچہ یہ خدشات موجود ہیں کہ حکمران انتخابات کے عمل کو ایک سال آگے دھکیلنا چاہتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ یہ منظرنامہ بیرونی طاقتوں کے ایما پر ہی ترتیب دیا جا رہا ہو کہ آصف زرداری اور ان کے حکمران ٹولے سے بہتر امریکا کا خدمت گزار کوئی نہیں ہوسکتا۔ قومی انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کا شوشا اسی لیے چھوڑا گیا۔ ہمارے خیال میں اس صورت حال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقی اپوزیشن گرینڈ الائنس کی صورت میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائے اور اس یک نکاتی ایجنڈے پر آگے بڑھے کہ حکومت قومی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے، ایک قابلِ قبول مکمل طور پر غیر جانب دار عبوری حکومت سامنے لائی جائے اور شفاف انتخابی فہرستوں کے ذریعے انتخاب کا اہتمام کیا جائے۔ اپوزیشن کی جماعتیں بظاہر اس تجویز سے متفق تو نظر آتی ہیں لیکن پیش رفت اور پیش قدمی کے لیے آمادگی کم کم دکھائی دیتی ہے۔
رابطہ عوام مہم کے دوران ہم یہ بات تسلسل سے کہہ رہے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ اس بات کو فروغ ملے اور بڑے پیمانے پر اس کو دوہرایا جائے کہ پچھلے چھ سات الیکشن میں عوام نے جن پارٹیوں کو ووٹ دیے اور انھیں ایوانِ اقتدار تک پہنچایا، انھوں نے سوائے مہنگائی و بے روزگاری، لاقانونیت و ٹارگٹ کلنگ اور امریکی غلامی کے، عوام کی جھولی میں کچھ نہیں ڈالا۔ حکمران خود عیش و عشرت میں ہیں لیکن عوام کے حصے میں کڑوے کسیلے پھل آئے ہیں۔ اگر لوگ انھی پارٹیوں کو جھولیاں بھر کے ووٹ دیں گے تو پھر بعد میں جھولیاں بھر کے بددعائیں دینے سے تقدیر نہیں بدلے گی۔ ملک و ملّت کی قسمت بدلنی ہے تو ووٹ دینے کا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کرپٹ حکومت کے ذریعے کرپٹ معاشرہ ہی قائم ہوتا ہے، اور کرپٹ حکمران عوام کی فلاح و بہبود کے لیے نہ کوئی کام کرسکتے ہیں اور نہ ان کے ذریعے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔  اگر لوگ ووٹ دینے کے رویّے پر نظرثانی کرتے ہوئے ان جماعتوں کو مسترد کریں جو ان کے لیے مشکلات اور مصائب کا سبب بنی ہیں تو ان کی قسمت بدل سکتی ہے۔
لوگ اس بحث میں بھی جابجا کنفیوژن سے دوچار نظر آتے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے کسی تبدیلی یا انقلاب کی گھن گرج نہیں سنی جاسکتی۔ یہ بات تسلیم ہے کہ انتخاب مکمل انقلاب کا راستہ نہیں ہے، لیکن جزوی انقلاب اور جزوی تبدیلیاں بہتری کی طرف مائل کرنے اور منزل کو قریب کرنے کا ایک ذریعہ ضرور ہیں۔ اگر انقلابی ووٹرز کی تعداد بڑھتی چلی جائے اور وہ انقلاب کی پشتی بانی کریں تو یقینی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انتخاب کا راستہ بھی انقلاب کی طرف لے جاسکتا ہے۔ اگر عوام اور ووٹرز حکمرانوں کی، ظالموں اور جاگیرداروں کی سیکولر لابی اور امریکی ایجنٹوں کو ووٹ نہ دیںاور انھیں بڑے پیمانے پر غیر مقبول بنادیں تو اس کے نتیجے میں بھی اس تبدیلی کے دروازے کھل جائیں گے جو مطلوب ہے، اور جس کے نتیجے میں ان شاء اللہ ’اسٹیٹس کو‘ کے بت گرجائیں گے۔ اس لیے جماعت اسلامی نہ صرف اپنے بہی خواہوں اور خیرخواہوں سے، اپنے سے ہمدردی رکھنے والوں اور حمایت کرنے والوں سے یہ اپیل کرتی ہے بلکہ ملک کے اہلِ دانش و بینش سے، سوچ اور فکر رکھنے والوں سے، ظالمانہ معاشی نظام کے دو پاٹوں میں پسنے والے انسانوں سے، دکھی لوگوں سے، غریبوں سے، محروموں، بے کس و مجبوروں سے بھی یہ اپیل کرتی ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے جلو میں آجائیں۔ عدل و انصاف کا نظام قرآن و سنت کی فرماں روائی کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا کشمکش مول لے کر اسلامی نظام کی طرف بڑی تعداد میں لوگوں کو راغب کریںاور اسلام کے بابرکت نظام کو قائم کرنے کی نیت اور ارادے کے ساتھ انتخاب کے ذریعے تبدیلی کو یقینی بنائیں۔


No comments:

Post a Comment