Sunday 2 September 2012



                                                        شمع محفل بن کر تونے کھودیا وقار زندگی
تحریر۔ام مسفرہ کراچی


اسلام ایک معتدل اور متوازن نقطہ نظر کا حامل دین ہے ۔ وہ عورت کوسارے معاشی ، سیاسی اور سماجی حقوق دیتا ہے جو مرد کو اس نے دئےے ہیں۔لیکن آج مغرب عورت کے پردہ و حجاب کو بے نقاب کرنا چاہتا ہے وہ اسے ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کہتا ہے۔ عصر حاضر کی تہذیبی خصوصیات میں سے ایک خاصیت یہ ہے کہ اس نے عورت کے اندر بے حیائی و عریانی کا رحجان پیدا کر دیا ہے۔ عورت کے معنی چھپی ہوئی یا ستر کے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
اے نبیؐ مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے با خبر رہتا ہے۔ اور اے نبیؐ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں ، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھارنہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنابناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے : شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، اپنے لونڈی غلام، وہ زیر دست مرد کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں ۔ وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپارکھی ہو اس کا علم لوگوں کو ہو جائے۔اور اے مومنو ، تم سب ملکر اللہ سے توبہ کرو ، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ (سورۃ النور ٣٠۔٣١)
رب کائنات نے عورت کو ایک خاص مقام دیا ہے اسے گھر میں قرار سے رہنے کو کہا ہے کیونکہ اس نے عورت کو بنایا ہی گھر کے لئے ہے۔ لیکن عورت کو حدود میں رہتے ہوئے گھر سے باہر نکلنے سے منع نہیں فرمایا کیو نکہ رب کائنات جانتا ہے کہ انسان ہونے کے ناطے زندگی کی ضروریات بھی ہیں۔ اسلام نے عورت کو حجاب کا حکم دے کراس کی عصمت اور آبرو کی حفاظت کی ہے۔اسے تحفظ فراہم کیا ہے۔، اسے عزت و احترام دیا ، اسے وقار عطا کیا ، سچی بات یہ ہے کہ عورت نے جتنی اعلیٰ و ارفع مقام اسلام کے جوار رحمت میں پایا ہے اس کی نظیر تمام مذاہب عالم مین تو کیا خود موجودہ دو ندگیر کی نام نہاد مغربی تہذیب میں بھی پایا جانا بلکہ عشرعشیر بھی پایا جانا نا ممکن ہے۔
آج مغرب بڑے نعرے لگا رہا ہے کہ پردہ ترقی کی راہ میں رکا وٹ ہے۔ لیکن سروے کے مطابق مغرب میں 90 فیصد جنسی آوارگی پردہ نہ کرنے کی وجہ سے پھیل رہی ہے۔ اسلام توپردہ کے زریعے عورت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ عورت شمع محفل بن کر کلبوں اور سینماؤں میں ڈانس کرے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی عورت گھر سے نکل کر شمع محفل بنی اور مجلسوں اور محفلوں کی رونق بڑھانے لگی تو جنسی آوارگی پھیلی، جو گندگی بند کمروں میں برداشت نہیں کی جا سکتی وہ بازاروں اورسڑکوں میں پھیلنے لگی۔انتہائی قابل احترام اور پاکیزہ رشتے بھی اس سے محفوط نہیں۔
ورلڈ کپ96ء میں سونیا گاندھی نے بڑے فخر سے یہ بیان دیا کہ ۔
"ہم نے دوقومی نظریہ کو پاش پاش کردیا ہے۔ پاکستانی ریڈیو اور ٹی وی ہماری ثقافت پیش کر رہے ہیں اور پاکستانی لڑکے لڑکیاں ہمارا لباس پہنتے ہیں فخر محسوس کرتے ہیں"
ــ۔
یقیناً آج کی مسلمان عورت مغرب کے ہاتھوں بک چکی ہے۔ آج کی عورت کے دین و اخلاق کی قربانی دیکر اپنے احترام و وقار کو مسمار کردیا گیا ، انھیں حصول دولت کا ایک سستا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ تجارت کو بڑھانے اور مصنوعات کی پبلسٹی کےلئے عورت کو استعمال کیا۔ ہزار روپیہ کی کوئی چیز ہو یا دو پیسے کی عورت کی پرکشش اور دل لبھانے والی تصاویر آخر ہمیں کس چیز کی طرف دعوت دے رہی ہے۔ بات صرف اشتہار کی حد تک نہیں رکی بلکہ عورت کو کھلے بازار میں اس لئے بٹھایا گیا ہے کہ وہ اپنی نازو ادا سے مرد کی تیار کردہ مصنوعات کو فروخت کرے ، اسکے قائم کردہ ہوٹلوں اور کلبوں میں مہمانوں کا استقبال ، خاطر تواضح اور خدمت کرے اور سینما ہالوں میں تھرک تھرک کر اپنے جسم کے پیچ و خم کی نمائش کرے۔
ـ ؎بنت مشرق داستان شوق کا عنوان نہیں                                                                  
موجودہ دور اس بات کو ماننے ہی کےلئے تیار نہیں ہے کہ عورت کا مرکز عمل اس کا گھر ہونا چاہئے۔ اسلام اختلاط مردو زن کا سخت مخالف ہے جبکہ یہ اختلاط موجودہ معاشرت کا لازمی عنصر بنا دیا گیاہے اسلام نے غض بصر کا حکم دیا ہے جبکہ موجودہ دور کے افکار کا سارا دفتر اس تصور ہی سے خالی ہے کہ کسی اجنبی عورت پر کبھی نظر پڑ بھی جائے تو آدمی کو فوراً نگاہیں نیچی کر لینی چاہئے۔ کچھ عجب نہیں کہ وہ مفت کی ایک لذت سے محروم ہونے کو بے ذوقی قرار دے۔ اسلام تعلیم و تربیت ، کھیل کود اور تفریح کے میدان میں عورت اور مرد کے اختلاط کو ان کے اخلاق کےلئے تباہ کن سمجھتا ہے جبکہ موجودہ دور میں یہ سارا نظام دونوں کے اختلاط ہی پر مبنی ہے اور اسے اس کی خوبی سمجھا جاتا ہے۔ اسلام کا حکم ہے کہ عورت گھر سے نکلے تو راستہ میں کنارے کنارے اور مردوں سے بچ کر، عبادات تک میںاس نے دونوں کو ایکدوسرے سے الگ رہنے کی تعلیم دی ہے۔ جبکہ منوجودہ دور عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کا رودار نہیں ہے۔ وہ سڑکوں پر، بازاروں میں ، دفاتر میں، سماجی اور معاشرتی پروگراموں میں عورت کو مرد کے شانہ بشانہ اور دوش بدوش دیکنا چاہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک حجاب ہی نہیں اسلام کے بہت سے صریح احکام کو توڑے بغیر کوئی مسلمان عورت زندگی کی تگ ودو میں اس آزادی کے ساتھ حصہ نہیں لے سکتی جس آزادی کے ساتھ آج کی عورت لے رہی ہے۔پاکستانی معاشرے میں بھی بغیرکسی روک تھام کے انڈین چینلزکی بھرمارنے گھرکی دہلیز عبورکرکے بیڈرومزاورکامن رومزمیں مرکزی مقام حاصل کرلیاہے اس سیلاب بلا خیزسے ہرخاندان پریشان ضرورہے لیکن بندباندھنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی اس وقت صورتحال یہ ہے کہ معاشرہ اس کے اثرات سے مجروح ہورہاہے۔ معاشرے میں عورتوں اوربچوں کے خلاف جرائم کی شرح اوربدلتی اقداراس کی کھلی نشاندہی کررہی ہیں۔ آج ہمارے ٹین ایجزکے ہیروز لڑکیوں اورخواتین کے موضوعات گفتگوبالخصوص دیہی علاقوں کی اہم تفریح ان چینلزکے گردگھوم رہی ہے۔جاگیردارانہ معاشرے میں لوگ عیش وعشرت کے لیے اپنے گھروں سے نکل کر آبادیوں سے دورایک الگ دنیا یعنی طوائفوں کے کوٹھوں پرجایاکرتے تھے۔ لیکن گھروں کی دنیا میں ان بازاروں یا عورتوں کانام لینا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اوریوں یہ برائی محدود پیمانے پرتھی معاشرے میں عام نہیں تھی لیکن اب کوٹھوں اورطوائفوں کے مناظراورکہانیاں گھروں میں آویزاں متحرک اسکرین پر سازوآوازکے کھلے ڈائیلاگ کے ساتھ ہرآنکھ اورہرکان میں اپنا جادوجگارہے ہیں کیا یہ عورت کا استحصال نہیں ہے؟ ہماری تہذیبی اقدارسرمایہ داری نظام کے آگے ریت کی دیوارثابت ہورہی ہے۔ ہم سنتے ہیں کہ فلاں فلم نے ایک دن میں اتنے کروڑکا بزنس کیا فلاں ہیروز ہیروئن اتنا معاوضہ لیتاہے یہ بزنس ہے لیکن اس کے اثرات کی کیا قیمت معاشروں کو اداکرنی پڑرہی ہے پاکستانی ہندوستانی روسی چینی وغیرہ معاشرے اس سے آگاہ ہوتے جارہے ہیں جب نیویارک اورماسکو میں کوئی سیکس کلرسینکڑوں عورتوں کو ہوس کا نشانہ بناکر ان کا بہیمانہ قتل کرڈالتاہے یا ہندوستان یا پاکستان کے مضافاتی علاقے میں جھاڑیوں سے آٹھ یا دس دن پرانی ہوس کا شکار تعفن زدہ لاش معاشرے کے ضمیرپرتازیانے برساتی ہے اور نوحہ کناں وسراپا سوال بن جاتی ہے کہ ہم نے کتنے کروڑ کے بزنس کا تاوان اداکیاہے؟ ہم نے اپنی اقدارکو کس قیمت پر رہن رکھ دیاہے جس کا سود کتنی نسلیں اداکرتی رہیں گی۔ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے ۔ ٤ستمبر عالمی یوم حجاب ایک بارپھر دنیا کے ہرمعاشرے کے دروازے پر دستک دے رہاہے کہ اس ملک کی سرحدیں اس کے گھربیڈروم اور کامن روم کی سرحدیں جدید دنیا کے سٹیلائٹ تحفوں کے بداثرات سے کس حدتک محفوظ ہیں۔؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ آج بھی ہم ہوش کے ناخن لیں اور اپنے معاشرے اور اقدار کو بچانے کے لئے شمع محفل نہیں ملکہ حرم بنیں۔

No comments:

Post a Comment