Thursday 11 October 2012


                                                    تیونس کی حکمران جماعت اور سیکولر حلقوں کو لڑانے کی کوشش  

                     
·        تیونس کی حکمران جماعت ’النہضت الاسلامی‘ کے سربراہ راشد الغنوشی کی سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائیی جانے والی ویڈیو نے سیاسی، ابلاغی اور حکومتی حلقوں میں ایک نیا بھونچال پیدا کیا ہے۔
العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق متنازعہ ویڈیو میں راشد الغنوشی ملک کے سیکولر طبقے کے حوالے سے اپنی شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں انقلاب کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ النہضت الاسلامی نے ویڈیو کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے لادین قوتوں نے اسلام پسند حکومت کو بدنام کرنے کے لیے تیار کیا ہے۔ تنظیم کے مطابق شیخ الغنوشی کے بیانات کو سیاق وسباق سے ہٹا کر من گھڑت موقف واضح کرنے کے لئے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے ویڈیو درحقیقت تیونس کے اسلام پسند اور سیکولر طبقے کے درمیان اندرون خانہ جاری سرد جنگ کی عکاس ہے۔ ویڈیو کی ترویج سے حکمراں جماعت کو سیکولر حلقوں کو اپنے قریب لانے میں بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ نیز ویڈیو سے دونوں طبقوں کے درمیان اختلافات کی خلیج مزید گہری ہو گی۔
سفلیوں کے لئے غنوشی کی ہدایات
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر تیزی سے مقبول ہونے والی متنازعہ ویڈیو میں راشد الغنوشی نے ملک کے سخت گیر سلفیوں کو ہدایات دیتے ہوئے خبردار کیا کہ وہ سیکولر لوگوں کی چالوں سے ہوشیار رہیں۔ ان کا کہنا تھا: "اگرچہ تیونس میں عوامی انقلاب کے بعد اسلام پسند حکومت قائم ہو چکی ہے لیکن ریاست کے کلیدی اداروں کی زمام کار اب بھی لادین ہاتھوں میں ہے۔ اس لیے حکومت بے بس ہے اور اسے ملک کو پارٹی کے منشور کی روشنی میں اسلامی سانچے میں ڈھالنے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
راشد الغنوشی نے سلفیوں کو یاد دلایا کہ الجزائر کے پارلیمانی انتخابات میں اسلام پسندوں نے بھاری کامیابی حاصل کی تھی، لیکن نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ الجزائر میں انتخابی کامیابی حاصل کرنے والوں کو گمان تھا کہ ریاست کے تمام کل پرزے ان کے ہاتھ میں ہوں گے اور وہ ملک کو اسلامی سانچے میں ڈھال لیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ صورت حال اس کے برعکس ہوتی گئی۔
ویڈیو میں شیخ راشد سلفی نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیونس میں انتظامیہ، پولیس اور فوج سب غیر محفوظ ہیں۔ انہوں نے سلفیوں کو صبر وتحمل کی تلقین کی اور کہا کہ مساجد ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ آپ ان میں جیسے چاہیں وعظ و تلقین کا سلسلہ جاری رکھیں لیکن تعلیمی ادارے، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا تصرف کو آپ حکومت تیئں رہنے دیں۔
تیونسی تجزیہ نگار منذر ثابت نے ویڈیو کے بارے میں العربیہ سے بات کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا کہ تیونس میں حکمران اعتدال پسند مذہبی جماعت النہضہ اور سخت گیر سلفیوں مسلک کے میں گہری قربت نہیں ہے۔ ملک کے مسلکی ’سٹیٹس‘ کے بارے میں دونوں جماعتوں کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ النہضہ، جسکی کامیابی میں سلفیوں کا ووٹ بینک بھی شامل ہے، سلفی مسلک کے بارے میں اپنے اندازے درست ثابت نہیں کر سکی۔ اس کی ایک زندہ مثال 14 ستمبر کو تیونس میں ہونے والے پرتشدد مظاہرے اور امریکی سفارتخانے پر حملہ ہے، جس میں اعتدال پسند یا سیکولر حلقوں کو نہیں بلکہ سلفیوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔
النہضہ کی تردید
ادھر حکمراں جماعت النہضہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر نشر شیخ راشد الغنوشی کے بیانات پر مبنی ویڈیو کو جعلی قرار دے کر اسے یکسر مسترد کر دیا ہے۔
النہضہ کے بیان مطابق اس ویڈیو میں شیخ الغنوشی کے جملوں کو ان کے سیاق وسباق سے ہٹا کر شامل کیا گیا ہے تاکہ تشکیک کی فضاء پیدا کی جا سکے اور النہضہ کو عوامی حلقوں میں بدنام کیا جا سکے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ راشد الغنوشی کے جن جملوں کو توڑ مروڑ کر ویڈیو میں شامل کیا گیا وہ انہوں نے آج نہیں بلکہ رواں سال فروری میں سلفی مسلک کے نوجوانوں سے گفتگو کے دوران کہے تھے۔ اس گفتگو میں بھی انہوں نے تمام اسلام پسند قوتوں اور سیکولر طبقوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ملک وقوم کے مفاد میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں اور ملک تقسیم ہونے سے بچائیں۔

No comments:

Post a Comment