Thursday 11 October 2012

ملالہ یوسف زئی کا ملال اور ہدف اسلام


                   

                       ملالہ یوسف زئی کا ملال اور ہدف اسلام

                                                                        (محمد امین اللہ)

    ملالہ یوسف زئی پر ہونے والا بزدلانہ ، بےہیمانہ، سفاکانہ، ظالمانہ اور بے رحمانہ حملہ قابل مذمت بھی ہے اور قابل ملامت بھی۔ اس نڈر ، بے باک اور قابل فخر بچی کے لئے پوری قوم دعا گو ہے ۔ حکومت،میڈیا، سیاسی و مذہبی رہنما ہر ایک نے اس حملے کو ایک مذموم اورقابل مذمت حرکت قرار دیا ہے۔ اور کسی طرح بھی ےہ ظالمانہ قدم کسی ہوش مند فرد کا کام نہیں ہو سکتا۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی ہر تخریب کاری، بم دھماکہ اور خود کش حملے کے فوراً بعد میڈیا پر یہ اعتراف بہادری تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے نشر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔اور الیکٹرانی میڈیا کے دانشور ۔جن کو Anchar personکا خطاب حاصل ہے جو گاؤں گاؤں ؛گلی گلی شہر شہر اپنے نمائندوں کے ذریعہ حقائق کی تلاش میں رہتے ہیں اسکرین پر آ کر خصوصی پروگرام شروع کر دیتے ہیں بظاہر تو یہ مرتکب افراد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں مگر ہدف اسلام اور مسلمان ہو تا ہے۔ اسلام نے سب سے زیادہ حرمت انسانی جان کو دی ہے چاہے وہ کسی نامور،۔ قابل فخر اور بین الاقوامی طور پر معروف فرد کی ہو یا کسی گاؤں کے رہنے والے ان پڑھ یا گنوار کی ہو دونوں کے قاتل قابل قصاص ہیں۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کی جان تو حرمت کعبہ سے زیادہ حرمت رکھتی ہے۔ دنیا کی تمام بڑی جنگیں عورت کی حرمت کے لئے لڑی گئی ۔ ہلین آف ٹرائے کی جنگ ہو یا دروپدی کے لئے لڑی گئی۔مہا بھارت کی، سیتا کے لئے رام نے لنکا کو جلایا تو ایک بہن کی پکار پر محمد بن قاسم نے داہر کے دیبل کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ لہٰذا ہمارے میڈیا کے دانشوروں کو اپنی معلومات میں یہ اضافہ ضرور کر لینا چاہئے کہ ملک کے اندر پھیلی ہوئی تخریب کاری اور عالمی طاغوتی طاقتوں کی مسلسل ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے درمیان گھرا ہوا پاکستان جو بہر حال اسلام سے وابستہ ملک ہے اس کا آئین اسلام کی ضمانت دیتا ہے دشمن کی نظر میں روز اول سے کھٹک رہا ہے۔ یہ ملک جب سے بنا ہے اس وقت سے لے کر آج تک ملک میں سیکولر، نیم سیکولر اور امریکی سامراج کے پٹھو آمر اور جمہوری سیاسی حکمرانوں نے حکمرانی کی ہے۔ ملک کے تمام تر انتظامی، عدالتی۔، داخلی ۔ خارجی۔ فلاحی ۔ ابلاغی، عوامی سرکاری اداروں کے سربراہ نہ کسی مدرسے کا پڑھا ہوا ملا ہے اور نہ کسی دارالعلوم کا فارغ التحصیل علامہ، لیکن ملک بھی سیکولر او ر لبرل حکمرانوں نے توڑا اورآ ۤج اگر پھر ایک بار ملک ہر سطح سے انتشار کا شکار اور اپنی بقاء کے حوالے سے سوالیہ نشان ہے تو سیکولر اور لبرل حکمرانوں کی ہی حکمرانی کی وجہ سے ہے۔ لیکن میڈیا کے دانشور بھی سیکولر بدمعاشوں کے بدمعاشی کا طعنہ سیکولر ازم کو نہیں دیتے۔ اب آتے ہیں۔KPKکے حالات کی جانب سوات کی شورش اور فوجی آپریشن کے دوران یہ بات حقائق کے طور پر سامنے آئی کہ یہاں پر امریکی اور بھارتی اسلحہ حتی کہ روسی اور اسرائیلی اسلحہ استعمال ہوتا رہا ہے زندہ اور مردہ حالت میں پکڑے جانے والوں اور لاشوں کی شناخت کے بعد درجنوں لوگوں کا انکشاف ہوا کہ یہ ہندو تھے کیونکہ یہ غیر مختوم تھے اور طالبان کے بھیس میں اپنی مذموم کاروائیاں کر رہے تھے۔ پھر مشرف کی بزدلانہ حرکتوں اور زرداری کی زد پرستانہ حکمرانی نے ہزاروں امریکیوں کو ویزا جاری کرنا اور ریمنڈ ڈیوس کے بربرانہ کردار نے ہر پول کھول کر رکھ دیا ۔ میری میڈیا کے دانشوروں سے گذارش ہے کہ بدلتے ہوئے بین الاقوامی منظر میں ان طاغوتی چہروں کو پہچاننے کی کوشش کریں۔ جو صدیوں سے مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے اور مسلمانوں کو لڑا کر حکمرانی کرنے کی مذموم سازش میں مبتلا رہے ہیں ۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی گرفتاری کے بعد کیا یہ انکشاف نہیں ہوا کہ شکیل آفریدی بم دھماکوں اور اسکولوں کو تباہ کرنے کے لئے منگل باغ کو امریکہ کی جانب سے خطیر رقم دیا کرتا تھا ۔ سوات کا آپریشن معاہدہ امن کے بعد اس وقت شروع ہوا جب میڈیا نے ایک لڑکی کو کوڑے لگانے والی جعلی ویڈیو کا واویلا مچا کر آسمان سر پر اٹھا لیا اور اس پورے جھوٹے واقعہ کو اسلام کی شرعی سزاؤں کو ہدف تنقید بنا کر طاغوت کے مذموم مقاصد کو پورا کیا جبکہ لاکھوں روپے لے کر سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی بیٹی جس نے یہ فلم بنائی اس کے بارے میں اف تک نہ کہا اور 45لاکھ سوات کے با عزت شہریوں کو کیمپوں اورخیموں میں اپنے ہی ملک میں رہنے پر مجبور کیا گیا۔اور ہزاروں لوگ اجتماعی ہلاکتوں کے شکار بنے۔ جس میں سینکڑوں معصوم بچیاں اپنی ماؤں کی گود میں چیتھڑوں میں تبدیل ہو گئیں۔ نہ جانے ان میں کتنی ہی ملالہ کی طرح ملک و قوم کا نام روشن کرتیں۔ ملالہ تو ابھی زیر تعلیم تھی۔ مگر تعلیم کی دنیا میں روشن ستارہ عافیہ کو درندوں کے حوالے کرنے والے اور آج بھی درندگی کے شکار اس مظلوم بیٹی کے حق میں میڈیا نے قابل ذکر دانشوری نہیں دکھائی نہ امریکی انصاف کو ہدف تنقید بنایا کہ پورا ملک اٹھ کھڑا ہوتا۔ یہی میڈیا اور سیکولر حکمران جنھوں نے اپنی پوری ریاستی وسائل کو استعمال کر کے جامعہ حفصہ کی عزت مآب عالماؤں ، اور حافظ قرآن بیٹیوں کو دہشت گرد ثابت کر کے فاسفورس بموں سے جلوایا ہے۔ ''جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد نہ پھیلاؤ تو ےہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ''(البقراء) یہ اللہ کی دی ہوئی پہچان ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر کفر اور طاغوت کی کاسہ لیسی کرتے ہیں اور ان کی بھی ہے جو انسانیت اور امن کے نام پر صحافتی بد دیانتی کرتے ہوئے مسلسل اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں. جامعہ حفصہ کی بیٹیاں اس لئے جل جانے کی مستحق تھیں کہ اےک طوائف کے مکروہ دھندے کو ختم کرنا چاہتی تھیں۔ اس لئے ان کو بھوکا پیاسہ ماردینا جائز تھا کہ ان کی زبان کلمہ ،قرآن اور ذکر رسول سے تر تھیں۔ وہ ملٹن اور شیکسپیئر کی نظمیں پڑھنے والی نہ تھیں۔ جب کوئی جہالت کا مارا وڈیرا ، جاگیردار ےا خان جو حکمرانی کرتا ہے اور حکمرانوں کا بغل بچہ بھی ہے علاقائی رسم و رواج کو بروئے کار لاتے ہوئے غیر انسانی حرکت کرتا ہے توفوراً میڈیااس کو اسلام کے نام سے جوڑنا شروع کر دیتی ہے۔ اور دانشور فتوے جھاڑنے شروع کر دیتے ہیں کہ یہ تو مسلمان کہلانے کے لائق بھی نہیں حالانکہ اسلام نے کسی قاتل کسی زانی ۔ کسی چور اور مجرم کو اسلام سے خارج نہیں کرتا بلکہ دنیا اور آخرت کی سزاؤں کی وعید سناتا ہے۔ مگریہی میڈیا جب پوپ بنڈکٹ کا ذاتی ملازم بیٹی کن سٹی کے پادریوں اور خود پوپ کے جرائم کا پردہ فاش کرتا ہے تو نہ کوئی بریکنگ نیوز ہوتی ہے نہ خاص پروگرام نہ عیسائیت کو مطعون کیا جاتا ہے۔ جب ایک عیسائی شدت پسند 80سے زائد عیسائیوں کو قتل کر کے اپنے شدت پسندانہ جرم کا اعتراف کرتا ہے ،۔ جب ایک عیسائی ملعون جرمنی کی بھری عدالت میں مروا الشر بینی کو جو حاملہ بھی تھی صرف حجاب اوڑھنے کے جرم میں قتل کرتا ۔ جب امریکہ کے عیسائی شر پسند 11سکھوں کو مسلمانوں کے شبہ میں قتل کرتا ہے تو کوئی میڈیائی دانشور منھ تک نہیں کھولتا۔ اور عیسائیٹ کو بدنام ہوجانے کا راگ نہیں الاپتا۔ '' ایک خدا کے نام پر قتل'' جملہ ادا کرنے والی دانشوری سے کوئی پوچھے کہ گذشتہ دو عالمی جنگیں جس میں 7تا8کروڑ لوگ کس خدا اور مذہب کے نام پر مارے گئے ۔ ویتنام تا بوسنیا ، فلسطین تا کشمیر ، افغانستا ن تا عراق 60،70 لاکھ مسلمانوں اور انسانوں کو ذبح کرنے والوں کے مذاہب کیوں ہدف تنقید نہیں بنتے اس لئے کہ ''جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے ، باغ تو سارا جانے ہے''کے مصداق عالمی طاغوت کے زیر سایہ یہود و نصاریٰ اور اہل ہود کے اتحاد خبیثہ کے ملٹی نیشنل کمپنیوں سے چلنے والے چینل کا کاروبار اور چاکری کرنے والے دانشوروں کا ضمیر کےسے جاگے گا اور حق و صداقت کی آواز کہاں سے اٹھے گی۔
اسی منڈی میں جہاں صاف کفن بکتا ہے
جسم بکتا ہے ادب بکتا ہے فن بکتا ہے
    بات دراصل یہ ہے کہ پاکستان اور عالم اسلام کا بچہ بچہ ا مریکہ ، اسرائیل اور بھارت کی جارحیت پسندانہ عزائم سے واقف ہو چکا ہے۔ امریکہ اور اس کے دلال حکمرانوں اور ان کے زیر سرپرستی قلم کی آبرو بےچنے والوں سے شدید نفرت کرتا ہے۔ موجودہ مکروہ فلم کے بعد عالم اسلام میں امریکہ اور مغرب کے خلاف احتجاج کی لہر نے امریکیوں کو حواس باختہ کر دیا ہے ۔ لہٰذا امریکیوں نے بلیک واٹر کے کارندوں کے ذریعے سے ملالہ پر حملہ کرکے ہوا کے رخ کو موڑنے کی سازش کی گئی ہے۔ میڈیا کے با ضمیر لوگوں سے میری گذارش ہے کہ آپ حقائق کا پتہ لگائیں کہ تحریک طالبان نے یہ حرکت کی ہے تو ان کو اس سے کتنا فائدہ ہوا ۔ تحقیق ہمیشہ جرم کے پیچھے فائدہ کس کا ہے کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ 2014سے پہلے امریکہ پاکستان کو پوری طرح انتشار میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ اس کی لاکھ کوششوں کے باوجود پاکستانی فوج شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنے کو تیار نہیں ہے مگر اس واقعہ نے جنرل کیانی کو بھی پشاور جا کر ملالہ کی خیریت معلوم کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور میاں افتخار کا شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا مطالبہ بھی سوات میں آپریشن سے پہلے ایک لڑکی کو کوڑے لگانے کے واقع سے مماثلت رکھتا ہے۔ لہٰذا دشمن کے ہاتھ مضبوط نہ کرنے یہودو نصاریٰ اور بھارت کے سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ملالہ حملے کی تہہ تک پہنچا جائے ۔ اس لئے کہ میڈیا پر فوراً اعترافی بیان کی سچائی کوئی حقیقت نہیں رکھتی آج میڈیا ایک طرف واقعات و حالات کی آگہی کا کام دے رہا ہے تو دوسری جانب رائی کو پہاڑ کو اور پہاڑ کو رائی بنا کر دجالی فتنوں کو بروئے کار لا رہا ہے۔ ذرا سوچئے تو پرنٹ اور الیکٹرانی میڈیا نے صوبہ خیبر پختون  خوا، بلوچستان اور سندھ کے دگرگوں حالات میں بین الاقوامی سازشوں کی نقاب کشائی کرتی رہی ہے۔ آج تحریک طالبان پاکستان میں درجنوں دھڑے بن چکے ہیں فضل اللہ کنڑ میں بیٹھا ہوا امریکیوں کی سرپرستی میں پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملہ کر رہا ہے اور امریکی ایک طرف شمالی وزیرستان کے ان لوگوں پر حملہ کر رہا ہے جو پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور آج تک پاکستانی مفادات پر حملے نہیں کئے۔ حالانکہ جامعہ حفصہ کے واقع کے بعد جس شدت پسندی کے ساتھ رد عمل شروع ہوا تھا اس کا ادراک سب کو ہے اور یہ چنگاری آج بھی کہیں کہیں موجود ہے۔ ایک ملالہ کے لئے عالمی انسانی حقوق کی تنظمیوں سے لے کر امریکہ تک ایک بھونچال ہے مگر ہر طرف مسلمان بچیوں کو ماؤں کی گود میں چیتھڑوں میں تبدیل کرنے والا ڈرون حملہ قابل تعریف۔ آپ پاکستانی میڈیا کے دانشور یہ بات تو یقینی طور پر جانتے ہیں کہ ایک بڑی عدالت میں ہم سب کو پیش ہونا ہے ۔ لہٰذا اپنی زبانوں کو آفات للسان نہ بنائیے۔ اگر ہو گفتگو بنائے فتنہ تو بہتر ہے منھ سے کچھ نہ بولو۔ 9/11 کا سحر بھی تو میڈیا کا ہی کارنامہ ہے جس دھماکے سے عمارت کے پرخچے اڑ گئے آگ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئی اس سے ہائی جیکرکا پاسپورٹ مل گیا کتنی بڑی مکاری اور عیاری تھی ۔ اسی ملبے پر جب ایک دن محمد علی کلے اظہار تعزیت کے لئے گیا تو ایک صحافی نے سوال کیا کہ محمد علی تم کو ان مسلمان دہشت گردوں کے مذہب سے تعلق رکھنے پر کیسا محسوس ہوتا ہے تو محمد علی کلے کسی احساس جرم میں مبتلا ہونے کے بجائے صحافی سے سوال کیا کہ تم کو ہٹلر اور مسولینی کے مذہب سے تعلق رکھنے پر کیسا محسوس ہوتا ہے۔ خود کو نہ کوسئے نہ خود کو ملامت کیجئے ایک حق و باطل کی معرکہ آرائی کا میدان سج چکا ہے جس کے لئے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
                                                  دنیا کو ہے پھر معرکہ رو ح و بدن پیش
                                                  تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
                                                    اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسہ
                                                    ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
                                                    تقدیر امم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا
                                                  مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ
    ملالہ بیٹی قابل ستائش ، قابل قدر قوم کی بیٹی ہے اس کو نشانہ بنا کر دشمن نے اپنے خلاف پھےلنے والی نفرت کا رخ موڑنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام اور مسلمانوںکو بدنام کرنے کی سازش کی ہے ۔ تحریک حرمت رسولؐ کو ناکام کرنے کا ایک سفاکانہ عمل ہے یہی وجہ ہے کہ کراچی میں انسانیت کو پامال کرنے والے بوری بند لاشوں کا تحفہ دینے والے اس شہر کی کشادہ سڑکوں پر بے رونق اور خوف زدہ انسانوں کو زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور کرنے والے۔،ہسپتالوں کو ٹارچر سیل میں تبدیل کرنے والے جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے کو عملی جامہ پہنانے والے جامعہ حفصہ کی بیٹیوں کے قتل عام پر خوشی منانے والے ۔ انسانی ہمدردی میں آٹھ آٹھ مگرمچھ کے آنسو رو رہے ہیں۔ بلدیہ گارمنٹ فیکٹری کی بھٹی کوانسانی لاشوں سے پاٹنے والی خون آشام قیادت کے مکروہ چہروں کو اجاگر کیجئے۔ ذوالفقار آباد سے لےکر گوادر تک ۔ پاکستان کے ساحلی پٹی کو کاٹ کر امریکی کالونی بنانے والی جمہوری غداروں کو بے نقاب کیجئے۔تاریخ آپ کوایک با ضمیر ، بہادر ، قلم کا سپاہی، کے نام سے یاد کرے گی۔
                                                          دوسروں سے نہیں ہے تیرا واسطہ
                                                        تیرے اندر بھی ہے ایک کٹھن راستہ
                                                          حوصلوں کی ضرورت ہے تم کو اگر
                                                       بے ضمیری سے لڑنے کا فن سیکھ لو

                                                                      محمد امین اللہ
                                                         ایڈمنسٹریٹر اقراء ہائی اسکول، اورنگی11ٰ
                                                               موبائل-03002730059

No comments:

Post a Comment