Tuesday 9 October 2012


                          رسائل و مسائل                            

                           ڈاکٹرمحمدرضی الاسلام ندوی
سفرِ حج کے لیے جمع کی گئی رقم پر زکوٰۃ
سوال:میں نے گزشتہ سال سفرِ حج کے لیے پیسہ اکٹھا کیاتھا، مگر میرا نام نہیں آیا۔ میں نے وہ پیسہ محفوظ کردیا تھا۔ اب اس پر ایک سال گزر گیا ہے۔ کیا مجھے اس کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟
خضرخاں، آندھرا پردیش
جواب:کسی مال کے نصاب تک پہنچ جانے کے بعد اس پر زکوٰۃ واجب ہونے کی دو شرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس پر ایک سال گزر گیا ہو اور دوسرے یہ کہ وہ آدمی کی بنیادی ضروریات سے زائد ہو۔ بنیادی ضروریات میں اپنے اور اپنے اہل وعیال نیز زیر کفالت رشتے داروں سے متعلق روزمرہ کے اخراجات ، جائے رہائش، استعمالی چیزیں ، کپڑے ، سواری، وسائل رزق جس سے آدمی اپنی روزی کماتا ہے ، وغیرہ شامل ہیں۔
اور فرضیت حج کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اس کے پاس حج کے مصارف کے علاوہ اتنا مال ہو کہ حج سے واپسی تک کی مدت کے لیے اس کے زیرکفالت افراد کی بنیادی ضروریات کے لیے کافی ہو۔
حج کا سفر انسان کی بنیادی ضروریات میں سے نہیں ہے کہ اس بنا پر اس کے لیے خاص کی گئی رقم سے زکوٰۃ کی ادائی ساقط ہوجائے۔ اگر اس پر ایک سال گزر گیا ہے تو اس کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ اس بات میں کوئی وزن نہیں ہے کہ اس کی زکوٰۃ ادا کرنے سے حج کے لیے جمع کی گئی رقم میں کمی آجائے گی۔ ہر سال سفرِ حج کے مصارف میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہوجاتا ہے ۔ جس طرح اگلے سال حج کرنے کی صورت میں آدمی کو اضافہ شدہ مصارف کا نظم کرنا ہوگا، اسی طرح وہ اس کی زکوٰۃ ادا کرنے کی صورت میں رقم زکوٰۃ میں ہونے والی کمی کی بھی تلافی کرسکتا ہے۔
چاند تارے والی چٹائیوں پر نماز
سوال:ہمارے علاقے میں اکثر مساجد میں جن چٹائیوں پرنماز ادا کی جاتی ہے ان میں چاند تارے بنے ہوتے ہیں۔ ان پر نماز پڑھنے کی صورت میں حا لتِ سجدہ میں نمازی کی پیشانی ان چاند تاروں پر پڑتی ہے ۔ اس کے پیش نظر کچھ لوگ ان چٹائیوں کو الٹا کرکے چاند تاروں کو پیروں تلے رکھ کر نماز پڑھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورج اور چاند کو سجدہ کرنے سے منع کیا ہے۔ جب کہ کچھ لوگ چٹائی الٹی کرکے اس پر نماز پڑھنے کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ شرعی اعتبار سے صحیح نقطۂ نظر کی وضاحت فرما دیں۔
عبدالرحمن                                                                     
امام جامع مسجد گوہانہ، میوات
جواب:اوپر جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ یہ ہے:
وَمنْ آیٰتِہٰ الَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ، لَاتَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَہُنَّ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ۔
 ﴿حم السجدہ:۳۷
’’اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند ۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو، بل کہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا ہے ۔ اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو‘‘۔
یہ آیت عقیدۂ شرک پر کاری ضرب لگاتی ہے ۔ لوگ سورج، چاند اور دیگر مظاہر کائنات کو خدائی میں شریک کرتے تھے، ان کی پرستش کرتے اور ان کے آگے سربہ سجود ہوتے تھے۔ انھیں ایسا کرنے سے منع کیاگیا اور صرف اللہ سبحانہ کی عبادت کرنے کا حکم دیاگیا۔
چٹائیوں میں بنی چاند تاروں کی تصویروں پر اگر حالتِ سجدہ میں پیشانی پڑ جائے تو اس پر اس آیت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ علماء  نے لکھا ہے کہ نقش کا حکم اصل کا نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسی چٹائیوں کو سیدھی رکھ کر بھی ان پر نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔ جو لوگ اس کو ناپسند کرتے ہووہ اوپر سے رومال یا کوئی کپڑا بچھاکر نماز پڑھ لیں۔
عقیقے کا وقت
سوال:میری پوتی کی پیدائش کے بعد اس کا عقیقہ نہیں ہوسکا، یہاں تک کہ اب اس کی عمر تین سال ہونے کو ہے۔ کیااب اس کا عقیقہ کرایا جاسکتا ہے؟ یہ بھی واضح فرما دیں کہ عقیقے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر کسی بچے کا عقیقہ نہ ہوسکے تو کیااس کے والدین یا جن کے زیر کفالت وہ ہو، ان پر گناہ ہوگا۔
محمد شفیع خاں، راجہ پور۔ بہرائچ ﴿یوپی﴾
جواب:عقیقے کا وقت کسی بچے کی پیدائش کے بعد سے شروع ہوتا ہے، چنان چہ پیدائش سے قبل کیاگیا عقیقہ صحیح نہ ہوگا اور فقہاء  کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کرنا مستحب ہے۔ اگر ساتویں دن نہ ہوسکے تو بعض فقہاء  نے چودہویں دن اور اُس دن بھی نہ ہوسکے تو اکیسویں دن عقیقہ کرنے کو مسنون قرار دیا ہے۔ اس کے بعد وہ مباح کے درجے میں آجاتا ہے۔ بع ض فقہاء  کے نزدیک بالغ ہونے سے پہلے تک عقیقہ کیا جاسکتا ہے۔
عقیقہ کرنا اصلاً باپ کی ذمے داری ہے۔ اگر کوئی دوسرا کردے تو بھی ہوجائے گا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں حضرت حسنؓ  اور حضرت حسینؓ  کی پیدائش پر ان کا عقیقہ کیا تھا۔ ﴿ابوداؤد: ۲۸۴۱
احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس کے لیے جو مختلف تعبیرات اختیار کی گئی ہے ان کی بنا پر حکم کی نوعیت میں فقہاء  کے درمیان اختلاف ہے۔ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک سنت مؤکدہ ، مالکیہ کے نزدیک مستحب اور احناف کے نزدیک مباح ہے۔ ﴿الموسوعۃ الفقہیۃ کویت، ۳۰/۲۷۶۔۲۷۷
احناف کے نزدیک چوں کہ عقیقے کا تاکیدی حکم نہیں ہے، اس لیے نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
مصافحے کا مسنون طریقہ
سوال:مصافحے کا صحیح اور مسنون طریقہ کیا ہے؟ بعض حضرات دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے پر اعتراض کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ، مصافحہ دونوں ہاتھوں سے ہونا چاہیے یا ایک ہاتھ سے؟                        عبدالرحیم خاں ،بنگلور
جواب:سلام کرتے وقت مصافحہ کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’دو مسلمان باہم ملاقات کے وقت مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے ان کی مغفرت کردی جاتی ہے‘‘۔ ﴿ترمذی: ۲۷۲۷﴾ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپﷺ  نے فرمایا: ’’مصافحہ کرو، دل کاکینہ دور ہوجائے گا‘‘۔ ﴿مؤطا: ۳۳۶۵﴾ حضرت انسؓ  کے شاگرد نے ان سے پوچھا: کیا اصحابِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مصافحہ کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں ﴿بخاری:۶۲۶۳
مصافحہ ایک ہاتھ سے بھی کیا جاسکتا ہے اور دونوں ہاتھوں سے بھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھائی، اس حال میں کہ میرا ہاتھ آپﷺ  کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا۔ ﴿بخاری،کتاب الاستئذان، باب المصافحۃ﴾ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصافحہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  نے اپناایک ہاتھ استعمال کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ۔ حضرت عبیداللہ بن بسرؓ  اپنے شاگردوں سے بیان کرتے ہیں : ’’میں نے بیعت کے وقت اپنے اس ہاتھ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر رکھا تھا‘‘۔ ﴿احمد،۴/۱۸۹﴾ اس روایت کے مطابق دونوں طرف سے ایک ہاتھ ہی کا استعمال ہوا تھا۔ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ  نے ایک موقع پر حاضرین سے بیان کیا: ’’میں نے اپنے ان دونوں ہاتھوں سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ہے‘‘۔ ﴿بخاری، الادب المفرد، ۲۵۳﴾ امام بخاری نے نقل کیا کہ ایک موقع پر حضر ت حماد بن زید نے حضرت عبداللہ بن مبارکؒ سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔ ﴿بخاری ، باب الاخذ بالیدین﴾اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ مصافحہ ایک ہاتھ سے بھی کیا جاسکتا ہے اور دونوں ہاتھوں سے بھی۔
میراث کی عدم تقسیم سے پیدا ہونے والے مسائل
سوال:میرے والد صاحب نے اپنے ذاتی سرماے سے ایک دوکان لگائی۔ اس سے پورے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ انھوں نے اپنی معاونت کے لیے میرے ایک بھائی کو اور کچھ دنوں کے بعد دوسرے بھائی کو شریک کیا۔ چند سال قبل والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ ترکے کی تقسیم عمل میں نہیں آئی۔ بڑے بھائی اس دوکان کی آمدنی سے پورے گھر کا خرچ اٹھاتے رہے۔ لیکن اب وہ گھر کا خرچ اٹھانے سے انکار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دوکان سے ہونے والے منافع کے صرف وہی حق دار ہیں، دوسرے بھائیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا جو بھائی دوکان چلا رہا ہے صر ف وہی کل منافع کا حق دار ہے یا وہ صرف اجرت کا مستحق ہے اور منافع میں تمام ورثائ شریک ہوں گے؟ وہ دوکان ایسی ہے کہ اگر اسے صرف کرایے پر اٹھا دیاجائے تو ماہانہ پچاس ہزار روپے کرایہ آسکتا ہے۔
جواب:اسلامی شریعت پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں انسانی زندگی میں کتنی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں ، آپ کا کیس اس کاایک نمونہ ہے۔ اس پر غور کرنے سے چند باتیں سمجھ میں آتی ہیں:﴿۱﴾ کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی ملکیت کی چیزوں میں سے کوئی چیز کسی کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے ۔ اسی طرح باپ اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کو اپنی کسی چیز کا مالک بناسکتا ہے۔ اس سلسلے میں حدیث سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ اگر کسی شخص کی کئی اولادیں ہوں اور وہ کوئی چیز دینا چاہے تو سب کو برابر برابر دے، تاکہ ان میں سے کسی کو اپنی حق تلفی کا احساس نہ ہو۔ حتیٰ کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان بھی فرق نہ کرناچاہیے۔ آپ کے بیان کے مطابق آپ کے والد نے ایسا نہیں کیا۔ یعنی اپنے کسی بیٹے کو اپنی زندگی میں اپنی کسی چیز کا مالک نہیں بنایا۔ ﴿۲﴾ کاروبار میں اگر سرمایہ باپ کا لگا ہے ، لڑکوں نے کاروبار بڑھانے میں باپ کا تعاون کیا ہے تو مناسب یہ ہے کہ ابتدائ ہی میں لڑکوں کی حیثیت متعین کرلی جائے۔ اگر ایسا نہ ہوتوباپ کے زیر کفالت ہونے کی صورت میں وہ باپ کے معاون شمار ہوں گے، منافع میں ان کاالگ سے حصہ نہیں لگایا جائے گا۔ ﴿۳﴾ باپ کے انتقال کے بعد فوراً اس کی پوری ملکیت ﴿مکان، دوکان، زمین ، جائداد ، کاروبار وغیرہ﴾ ورثائ کے درمیان تقسیم ہوجانی چاہیے تھی۔ اگر اُس وقت تقسیم نہیں ہوئی تو اب جتنی جلد ممکن ہو، اسے تقسیم کرلینا چاہیے۔ ﴿۴﴾ آپ کا جو بھائی دوکان چلارہا ہے، ظاہر ہے وہ دوکان اس کی ملکیت نہیں ہے ، کیوں کہ باپ نے اپنی زندگی میں اسے دوکان کا مالک نہیں بنایا تھا۔ محض یہ بات کہ وہ باپ کی زندگی میں ان کے ساتھ دوکان پر بیٹھتا تھا، اس کا مالک ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس کی تقسیم شرعی اعتبار سے ہونی چاہیے۔ اس کی ایک قابل عمل صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اس کی مالیت متعین کرکے اس میں دوسرے بھائیوں اور دیگر ورثائ کاجو حصہ بنتا ہو اسے وہ ادا کردے، اس طرح دوکان کا مالک بن جائے، بہ شرط یہ کہ دیگر ورثائ اس پر تیار ہوجائیں، یا کسی اور صورت پر تمام ورثائ اتفاق کرلیں۔ بہرحال کسی ایک بھائی کا اپنے باپ کی پوری میراث پر قبضہ کرلینا اور دیگر ورثائ کو محروم رکھنا کسی طور پر بھی جائز نہیں ہے۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔

No comments:

Post a Comment