Thursday 10 October 2013

ابوالا نبیاء حضرت ابراہیم اور جذ بہ قربانی

ابوالا نبیاء حضرت ابراہیم اور جذ بہ قربانی

خالد دانش
ابن عساکر ؒ کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی والدہ کا نام ’’امیلہ‘‘ او روالد کا نام آزر (تارخ) تھا، آپؑ بابل کی سرزمین میں صاحبِ عزّت و جلال ہوئے۔ سورۂ انبیاء میں خالق دوجہاں کا فرمانِ عالی شان ہے:’’اور ہم نے پہلے ہی ابراہیم ؑ کو اس کی صلاحیت عطا کی اور ہم اس سے واقف تھے۔‘‘ حضرت ابراہیم کی حیاتِ مبارکہ قربانی کی عدیم المثال تصویر ہے۔ وہ کون سا امتحان ہے، جو اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنے خلیل ؑسے نہیں لیا لیکن آپ ؑ کے پائے ثبات میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ رَبّ ذوالجلال نے اپنے خلیل ؑ کی عظمت و عزّت کا سکّہ ہر دل میں بٹھادیا۔ آپؑ کے تقدّس و احترام کا یہ عالم ہے کہ دُنیا کے تین بڑے مذاہب (اسلام، عیسائیت، یہودیت) آپؑ کو اﷲ وحدہٗ لاشریک کا عظیم المرتبت نبی ؑ مانتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑکے وجودِ پاک سے نا صرف دُنیا کو ٹھنڈک نصیب ہوئی بلکہ آتش کدۂ نمرود بھی سرد ہو گیا۔ ہرشئے کو جلا کر راکھ بنانے والی آگ خلیل اللہ ؑ کے لیے راحت اور سلامتی کی ضامن بن گئی۔ حکم رَبی ّ ہوتا ہے:’’ اے آگ! میرے ابراہیم ؑ پر ٹھنڈی ہوجا ،سلامتی والی ہوجا۔‘‘ عشقِ الٰہی ہو تو ایسا کہ کافروں کی آگ میں کود نا پسند فرمایا مگر توحید کے دامن پر آنچ نہیں آنے دی۔ ہیزن نامی جہنمی کی تیار کردہ منجنیق میں ڈال کر اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کے محبوب وبرگزیدہ نبی ؑ کو آگ میں ڈالا جارہا تھا، آسمانوں میں ہلچل مچ گئی، فرشتوں کے سردار حضرت جبرائیل ؑ تشریف لائے اور فرمایا: ’’اے اﷲ کے خلیل ؑ! کوئی حکم، کوئی حاجت؟‘‘آپؑ نے فرمایا : تمہارے ساتھ کوئی حاجت نہیں؟‘‘کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: جانتا ہے وہ میرا رَبّ ِجلیل آگ میں پڑتا ہے اب اُس کا خلیل بہ حکم رَبی آگ خلیل اﷲ پر گلزار بن گئی۔ سچّے رَبّ نے اپنے پسندیدہ و محبوب پیغمبرؑ کو کافروں پر برتری عطا فرمائی۔ نمرود بھی کُھلی آنکھوں سے حضرت ابراہیم ؑ کی استقامت اور آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ذاتِ عالی شان پر اﷲ تعالیٰ کی مدد اُترتے ہوئے دیکھ رہاتھا۔ وہ دل میں تسلیم کرچکاتھا کہ بے شک حضرت ابراہیم ؑ سچّے نبی ؑ ہیں، مگر حکمرانی جانے کے خوف نے اُسے حق سے دور کردیا اور لعنت اُس کا مقد ر بنی۔ سیّدنا ابراہیم ؑ کے والد بھی بے حد متاثر ہوئے۔ حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے: ’’بہترین کلمہ تھا، جو ابراہیم ؑ کے والد نے اپنے فرزند کواس حال میں دیکھ کر کہا تھا، ’’بہترین رَبّ ہے وہ، جو اے ابراہیم! تیرا رَبّ ہے۔‘‘ مگر ذلّت اور رسوائی آزر کا بھی مقدر رہی۔ حضرت ابراہیم ؑنے توحید کے عقیدے کو قوّت ،جلال اور بُردباری کے ساتھ پھیلایا۔ اسی عقیدے پربندوںکے باہمی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی۔ اس سے روگردانی کا نام کفر قرار پایا اور اقرار کے باوجوداس سے تغافل کو فسق قرار دیا گیا۔ اﷲ عزّوجل کے نڈر سپاہی نے توحید کی سربلندی کے لیے نمرود جیسے طاقتور کو للکارا اور اُسے اُس کی قوم سمیت دعوتِ حق دی، فرمایا: ’’عبادت خالق کی کرنی ہے، مخلوق کی نہیں، خالق مطاع ہے اور مخلوق مطیع ہے، خالق معبود ہے اور مخلوق عابد ہے، خالق اﷲ وحدہٗ لاشریک ہے اور کائنات کی ہر شئے مخلوق ہے۔‘‘ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم ؑنے اپنے باپ آزر سے کہا ، کیا تم بُتوں کو خدا بناتے ہو۔‘‘ حضرات ابراہیم ؑ نے پدری رشتے کی بُزرگی اور تقدّس کے پیشِ نظر بارگاہِ الٰہی میں آزر (والد) کے لیے دُعا فرمائی تاکہ اﷲ رَبّ العزّت اُنہیں ہدایت عطا فرمائے ۔ حد درجہ تبلیغ کے باوجودحضرت ابراہیم ؑکی زوجہ حضرت سارہ ؑ اور اُن کے بھائی حضرت لوط ؑکے علاوہ کوئی صاحبِ ایمان نہ ہُوا۔ بالآخر آپؑ نے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو ارشاد ہُوا’’اور ابراہیم ؑنے کہا،میں جانے والا ہُوں اپنے پروردگار کی طرف قریب ہی وہ میری رہنمائی کرے گا۔‘‘ آپؑ حضرت سارہ ؑ اورحضرت لوط ؑ کو ساتھ لے کر فلسطین کی طرف روانہ ہوئے۔ ارشادِ رَبّانی ہے: ’’پس لوط! ابراہیم پر ایمان لے آیا اور کہنے لگا ،میں اپنے پروردگار کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں، بے شک وہ غالب ہے، حکمت والا ہے۔‘‘(سورۃ العنکبوت) حضرت ابراہیم ؑ کی حضرت سارہ سے کوئی اولاد نہ تھی،اس لیے انہوں نے مصر کے بادشاہ کی صاحبزادی حضرت ہاجرہ ؑسے نکاح کیا اور اولادِ نرینہ کے لیے دُعا کی، اللہ تعالیٰ نے دُعا قبول فرماکراُنہیں حضرت اسماعیل ؑجیسا صالح فرزند عطا فرمایا۔ حدِ بلوغت کو پہنچنے پر لاڈلے بیٹے کی قربانی کا حکم خواب کے ذریعے منکشف کیا گیا۔ جب حضرت ابراہیم ؑ اپنے فرزند کو ساتھ لے کر قربانی کے لیے روانہ ہونے لگے تو حضرت ہاجرہؑ نے سوال کیا:’’کیا یہ اﷲ عزوجل کا حکم ہے؟‘‘ آپؑ نے فرمایا :’’ جی۔‘‘ حضرت ہاجرہ ؑنے شُکر اداکرتے ہُوئے فرمایا: ’’پھر غم نہیں۔ اﷲ پاک ہمیں کبھی ضائع نہیں فرمائیں گے۔‘‘حضرت ابراہیم ؑنے دونوں ہاتھ اﷲ جل شانہٗ کی بارگاہ میں بلند کئے اور دُعا فرمائی:’’ یااﷲ! انہیں نمازی رکھ، لوگوں کے دل ان کی طرف پھیر دے، انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما۔‘‘ دُعا کوشرفِ قبولیت بخشاگیا اور اس ویران بنجر وادی میں پینے کے لیے پاکیزہ زم زم اور کھانے کے لیے عمدہ ترین پھل مہیا کیے گئے۔‘‘ ایک پہاڑ کے قریب جاکر حضرت ابراہیم ؑ نے صاحبزادے حضرت اسماعیل ؑ سے کہا: ’’اے میرے بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تُجھے ذبح کررہا ہوں، بتا تیری کیا مرضی ہے۔‘‘ سعادت مند بیٹے کے مرتبے کا اندازہ لگایئے۔ فرمایا:’’ ابا جان! آپؑ کو حکم ملا ہے تو بلاخوف و خطر پورا کر ڈالیے۔آپؑ اِنشاء اللہ صبر کرنے والا پائیں گے۔‘‘ ارشاد رَبّا نی ہوتاہے: ’’جب دونوں تیا رہوگئے تو باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹادیا۔‘‘ تسلیم و رضا کایہ منظر قیامت تک کے لیے مشعل ِراہ بن گیا۔ ارشادِ رَبّ ِ ذوالجلّال ہوتا ہے :’’اورہم نے پُکارا، اے ابراہیم ؑ! تُونے خواب سچّا کر دکھایا، ہم نیک کاروں کو یونہی جزا دیتے ہیں۔ بے شک ،یہ صاف آزمائش ہے، ہم نے اس کا جذبہ ذبح ِعظیم کے ساتھ کردیا اور اُسے بعد والوں میں باقی رکھا۔‘‘ حضرت ابراہیم ؑ نے دیکھاکہ حضرت اسماعیل ؑکی جگہ مینڈھا موجود ہے۔ اس عظیم الشّان اور بے مثل قربانی کو اﷲ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے مقرر فرمادیا اور ہم مسلمان بہ فضل ِربی ّہر سال اس یاد کو تازہ کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں اس کی دلیل اس طرح موجود ہے: ’’اور ہم نے اسے بعد میں آنے والوں کے لیے قائم رکھا۔‘‘ اﷲ تعالیٰ ہم سب کوجذبۂ ایمانی کے ساتھ قربانی کرنے اوراس کی روح کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین) ٭…٭…٭
 
 

No comments:

Post a Comment