Thursday 1 November 2012

فتنوں کے دور میں زندگی کیسے گزاری جائے؟ ۔۔۔۔علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی


اکٹر یوسف القرضاوی
فتنوں، مشکلات اور سختیوں کے دَور میں عمل ہی کو اپنے لیے ذریعہ نجات بنایا جائے جو امت کے وجود کےلیے خطرناک ہوں۔ ایسے مواقع پر عملِ صالح دین میں مضبوطی، اس پر جما و اور حق پر ثابت قدمی کی دلیل بن جاتا ہے ۔ اس دَور میں عملِ صالح کی ضرورت دوسرے ادوار سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔حدیث صحیح میں ہے : ”طاقتور مسلمان اللہ کے ہاں کمزور مسلمان سے بہتر اور محبوب ہے“۔ (مسلم، احمد)اس کی مزید تائید آپ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے : ”بہترین جہاد یہ ہے کہ ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہا جائے“۔ (ابن ماجہ، بیہقی) نیز آپﷺ کا ارشاد ہے:”شہیدوں کا سردار ایک تو حضرت حمزہؓ ہیں اور دوسرا وہ شخص جو کسی ظالم حکمران کے سامنے کھڑا ہو جائے اور اس کو امر ونہی کرے اور وہ حکمراں اسے قتل کر دے“۔ ”سب سے افضل شہید وہ لوگ ہیں جو پہلی صف میں لڑتے ہیں اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے ، یہاں تک کہ شہید ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ جنت کے اونچے اونچے مکانات میں اٹکھیلیاں کریں گے ۔ تیرا رب انہیں دیکھ کر مسکرائے گا، اور تیرا رب کسی مقام پر کسی پر مسکرائے تو اس پر کوئی حساب نہیں ہوگا۔“ (احمد، ابوالعلیٰ، طبرانی) یہی وجہ ہے کہ اس شخص کی بڑی فضیلت ہے جو فتنے اور مشکلات کے دَور میں اپنے دین پر ثابت قدم رہے ۔ بعض احادیث نے تو ایسے شخص کو پچاس صحابہ کے ثواب کا مستحق ٹھہرایا ہے۔ ابوامیہ شعبانیؒ سے روایت ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوثعلبہ خشنیؓ سے پوچھا:آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ ..اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا، اگر تم خود راہِ راست پر ہو۔ اللہ کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے ۔۔۔ المائدہ: 105) تو انہوں نے کہا: بہت اچھا!! تم نے ایسے شخص سے سوال کیا جو اس کے بارے میں جانتا ہے ۔ یہی بات میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھی تھی۔ آپﷺ نے مجھے فرمایا تھا:”معروف پر عمل کرو اور منکر سے رکو۔ یہاں تک کہ تم ایسی حرص دیکھو جس کے پیچھے لوگ چلتے ہیں، اور ایسی خواہشات جن کی پیروی کی جاتی ہے اور ایسی دنیا داری جسے (دین پر) ترجیح دی جاتی ہے ، اور یہ کہ ہر شخص اپنی بات پر اڑا رہے ۔ تو ان حالات میں اپنی فکر کرو اور دوسروں کو چھوڑو دو۔ اس کے بعد ایسا دَور بھی آنے والا ہے جس میں صبر کرنا ایسا مشکل ہو جائے گا جیسے انگارے کو ہاتھ میں پکڑنا۔ اس دَور میں عمل کرنے والے کےلیے (عام حالات میں) اس جیسے پچاس آدمیوں کے برابر اجر ہوگا“۔ بعض روایات میں یہ اضافہ بھی کیا گیا ہے کہ کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! پچاس آدمیوں کا اجر ہم میں سے یا اُن میں سے ۔ آپﷺ نے فرمایا: تم میں سے پچاس آدمیوں کے برابر۔ (ابودا ود) حدیث کاخطاب مہاجرین و انصار کے سابقین اولین، اہل بدر، بیعت رضوان کے شرکا اور اس قسم کے صحابہؓ نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کے بعد کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ان کے درجے کو پہنچے ۔ اصل میں یہ حدیث موجودہ پُرفتن دور میں اسلام کےلیے کام کرنے والوں کے حوصلوں کو مہمیز دے رہی ہے کہ ان کے ساتھ ان کے رب نے اپنے رسول کی زبان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ ان کےلیے کئی گنا بڑھ کر اجر و ثواب ہوگا۔ یہاں تک کہ ان کا ثواب ایسے لوگوں میں سے پچاس افراد کے برابر ہوگا جو اسلام کی فتح و نصرت اور عروج کے دَور میں رہے ہوں۔ اب وہ وقت آگیا ہے جس کی رسول کریمﷺ نے خبر دی تھی۔ آج جو شخص اپنے دین پر عمل کرتا ہے اور اس پر ثابت قدم رہتا ہے ، وہ ایسا ہے جیسے اس نے ہاتھ میں انگارے پکڑ رکھے ہوں۔ وہ اندر سے بھی دبا و میں ہے اور باہر سے بھی برسرجنگ ہے ۔ کفر کی ساری طاقتیں اس کے خلاف دشمنی اور سازشوں پراکٹھی ہوئی ہیں، اگرچہ وہ حقیقت میں ایک نہیں ہیں۔ اللہ ان کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے ۔ دوسری طرف حکمرانوں کے کارندے اور دشمن کے آلہ کار طبقے اسلام کی خاطر کام کرنے والوں کے خلاف صف آرا ہیں۔ وہ بھی ان کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں اور ان کے خلاف دشمنی میں مصروف ہیں۔ وہ اپنی حد تک ان کو خوب پریشان کر رہے ہیں۔ حضرت معقل بن یسارؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:”ہرج کی حالت میں عبادت کرنا ایسا ہے جیسے میری طرف ہجرت کرنا“۔ (احمد، مسلم، ترمذی)ہرج سے مراد اختلاف اور فتنہ ہے ۔ بعض احادیث میں اس کی تفسیر قتل سے کی گئی ہے ۔ کیونکہ فتنہ اور اختلاف قتل کا سبب بنتے ہیں۔ چنانچہ وہاں مسبب کو سبب کا قائم مقام بنا دیا گیا ہے ۔ قلبی عمل کی جسمانی عمل پر ترجیح دین کی میزان میں عمل کی ترجیحات میں سے ایک یہ ہے کہ باطنی اور قلبی اعمال کو ظاہری اور جسمانی اعمال پر مقدم کیا جائے ۔ اولاً: اس وجہ سے کہ ظاہری اعمال فی نفسہ اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوتے ، جب تک کہ ان کے ساتھ باطنی عمل موجود نہ ہو۔ قبولیت کی بنیاد نیت ہے ، جیسا کہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: ”یقینااعمال کا دار و مدار نیت پر ہے“۔ (صحیح بخاری)یہاں نیت سے مراد وہ نیت ہے جو ہر قسم کی ذاتی اور دنیوی رغبتوں سے خالی ہو اور اللہ کےلیے خالص ہو۔ اللہ تعالیٰ کسی عمل کو قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ اللہ کےلیے خالص نہ ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اس کےلیے خالص کرکے ، بالکل یکسو ہو کر“۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:”اللہ تعالیٰ کسی عمل کو قبول نہیں کرتا جب تک وہ خالص نہ ہو اور اس کا مقصد اللہ کی رضا نہ ہو“۔(نسائی) حدیث قدسی میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے :”میں شریکوں سے بالکل بے نیاز ہوں۔ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ کسی کو شریک بنایا تو میں اسے اس کے شرک کے سپرد کر دیتا ہوں“ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ”وہ اسی کا ہوا جسے اس نے میرے ساتھ شریک کیا اور میں اس سے بیزار ہوں“۔ (مسلم، ابن ماجہ) دوم:اس وجہ سے کہ قلب انسان کی حقیقت ہے ۔ انسان کی اصلاح و فساد کا دار و مدار قلب پر ہے ۔ صحیحین میں ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ”خبردار! جسم میں ایک ٹکڑا ہے کہ جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہوتا ہے اور جب وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے ۔ خبردار! وہ ٹکڑا دل ہے“۔ (متفق علیہ) نبی کریمﷺ نے یہ بات بھی بیان فرمائی ہے کہ قلب ہی اللہ کی نظر کا مرکز ہے اور اسی کا عمل معتبر ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا: ”اللہ تمہارے جسموں اور تمہاری شکلوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے ۔ دیکھنے سے مراد قبولیت اور رحمت کا دیکھنا ہے“۔ قرآن کریم نے بھی یہ بات بیان کی ہے کہ آخرت میں نجات اور جنت کا حصول اسی شخص کے لیے ممکن ہے جس کا دل شرک، نفاق اور اس طرح کی دوسری مہلک بیماریوں سے محفوظ ہو اور وہ اللہ کی طرف مائل ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنے خلیل ابراہیمؑ کی زبان سے فرماتا ہے : ”اور مجھے اس دن رُسوا نہ کر جبکہ سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ۔ جبکہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلبِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو“۔ (الشعرائ:87-89) ارشاد ہے : ”اور جنت متقین کے قریب لے آئی جائے گی، وہ کچھ بھی دور نہ ہوگی۔ ارشاد ہوگا، یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اس شخص کے لیے جو بہت رجوع کرنے والا اور بڑی نگہداشت کرنے والا تھا، جو بے دیکھے رحمن سے ڈرتا تھا، اور دلِ گرویدہ لیے ہوئے آیا ہے“۔ (سورة قٓ: 31-33) معلوم ہوا کہ قیامت کے دن نجات اسی کا مقدر ہوگی جو اللہ کے پاس قلبِ سلیم لے کر آیا ہو اور جنت اسی کو ملے گی جو دلِ گرویدہ لے کر اپنے رب کے پاس آیا ہو۔اللہ کا تقویٰ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اولیں و آخریں، سب انسانوں کے لیے ایک وصیت (یعنی تاکیدی حکم) ہے اور وہ فضائل اور بھلائیوں اور دنیا و آخرت کی کمائی کی بنیاد ہے ، وہ حقیقت میں ایک امر قلبی ہے ۔ اسی وجہ سے نبیﷺ نے اپنی ایک حدیث میں فرمایا: ”تقویٰ یہاں ہے“۔ اس دوران آپ نے تین مرتبہ اپنے سینے کے بائیں طرف اشارہ کیا۔ یعنی آپﷺ نے اس بات کو بھی تین بار دہرایا اور ہاتھ سے بھی اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کیا تاکہ یہ بات لوگوں کی عقلوں اور ان کے دلوں میں اچھی طرح بیٹھ جائے ۔قرآن کریم نے بھی تقویٰ کو دلوں کی طرف منسوب کر کے اسی مفہوم کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ ارشاد ہے : ”یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو) اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے“۔ (الحج:32) تمام اخلاقیات، فضائل اور مقاماتِ ربانیہ جن کو اہل سلوک و تصوف اور روحانی تربیت کے داعیوں نے بہت اہمیت دی ہے ، وہ تمام ایسے امور ہیں جن کا تعلق دل سے ہوتا ہے ۔ خواہ وہ دنیا سے بے رغبتی ہو یا آخرت کی ترجیح، اللہ کےلیے اخلاص ہو یا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت، توکل علی اللہ ہو یا اس کی رحمت کی امید، اس کے عذاب سے ڈرنا ہو یا اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا، اس کی آزمائشوں پر صبر ہو یا اس کی قضا پر راضی ہونا اور اسی طرح وہ اُس کی طرف پوری توجہ ہو یا محاسبہ نفس۔ یہ اور اس طرح کی دیگر چیزیں، یہ سب کچھ دین کا جوہر اور اس کی روح ہیں۔ جس نے ان میں سے کوئی حصہ حاصل نہیں کیا، اس نے اپنے آپ کو اور اپنے دین کو بڑا نقصان پہنچایا:”اس شخص کو اپنے آپ پر رونا چاہیے ، جس نے اپنی عمر اس طرح ضائع کی کہ اسے ان چیزوں میں سے کوئی حصہ نصیب نہیں ہوسکا“۔ حضرت انسؓ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ: ”تین چیزیں ہیں جو اگر کسی میں پائی گئیں تو اس نے ایمان کا مزا چکھ لیا۔ ایک یہ کہ اللہ اور رسول اس کو ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں۔ دوسری یہ کہ وہ کسی شخص سے محبت کرے تو صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے کرے ۔ تیسری یہ کہ وہ کفر میں لوٹنا اس قدر ناپسند کرے جتنا کہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے“۔(متفق علیہ) ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے محبوب تر نہ بن جا وں اس کے اپنے بچے سے ، اپنے باپ سے اور تمام لوگوں سے“۔ (متفق علیہ) حضرت انسؓ ہی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبیﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہ! قیامت کب ہوگی؟ آپﷺ نے فرمایا ”تم یہ بتا و کہ تم نے اس کےلیے کیا تیاری کی ہے ؟” آدمی نے کہا، میں نے اس کےلیے نمازیں پڑھ کر، روزے رکھ کر یا صدقے دے کر کوئی زیادہ تیاری تو نہیں کی، البتہ یہ ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ”چلو پھر تم اسی کے ساتھ ہوگے جس سے تمہیں محبت ہے ”۔ (متفق علیہ)اس کی مزید تائید حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی اس حدیث سے ہوتی ہے ۔ کسی نے نبیﷺ سے پوچھا: ایک آدمی کسی گروہ سے محبت رکھتا ہے اور ابھی تک اس سے ملا نہیں ہے (اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟) آپ نے فرمایا ”ہر شخص اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اسے محبت ہوگی“۔ یہ احادیث دلالت کررہی ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول اور نیک لوگوں کی محبت کے ساتھ اگر زیادہ نماز، روزے اور صدقات نہ ہوں، تب بھی یہ اللہ تعالیٰ کے قُرب کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔ اس کی وجہ بھی اس کے سوا کوئی نہیں کہ یہ محبت جو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہے ، انہی اعمال میں سے ہے جن کا تعلق دل سے ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑامقام ہے ۔ اسی مفہوم کے اعتبار سے بعض اکابر کہا کرتے تھے :”میں صالحین سے محبت کرتا ہوں، امید ہے کہ ان کے ذریعے میری شفاعت ہو جائے ۔ میں ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہوں جن کی متاعٍ حیات گناہ ہیں، اگرچہ متاع میں ہم سب برابر ہیں“۔ چنانچہ اللہ کےلیے محبت اور اللہ کی خاطر نفرت ایمان کی تکمیل ہے ، اور یہ دونوں بھی افعالِ قلوب ہیں۔ حدیث میں ہے : ”جس نے اللہ کےلیے محبت اور اللہ کےلیے نفرت کی، اللہ کےلیے عطا اور اللہ کےلیے منع کیا تو اس نے ایمان کی تکمیل کرلی“۔ (ابودا ود) اسی طرح کا ایک اور ارشاد ہے : ایمان کی مضبوط ترین کڑی اللہ کی خاطر موالات، اسی کی خاطر دشمنی، اسی کےلیے محبت اور اسی کےلیے بغض ہے ۔ اس بنا پر ہمیں بعض دین داروں پر عموماً، اور داعیوں پر خصوصاً بہت تعجب ہوتا ہے کہ وہ اپنی توجہ بعض ایسے اعمال اور آداب پر مرکوز کرتے ہیں جن کا تعلق باطن کی نسبت ظاہر سے اور اصل جوہر کی نسبت شکل و صورت سے زیادہ ہوتا ہے ۔ جیسے شلوار کا ٹخنوں کے اوپر ہونا، مونچھیں منڈوانا یا کم کرنا اور داڑھیوں کو بڑھانا، منبر کی سیڑھیوں کی تعداد، نماز میں ہاتھ باندھنے یا پا وں رکھنے کا انداز اور اس طرح کے دوسرے امور جن کا تعلق ظاہری شکل و صورت سے زیادہ اور اصل جوہر سے کم ہوتا ہے ۔ یہ چیزیں خواہ کسی بھی وضع میں ہوں، دین میں کوئی ترجیح نہیں رکھتیں۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو اِن امور میں توبہت دقت سے کام لیتے ہیں، مگر وہ اُن امور میں یہ دقت اور باریک بینی نہیں دکھاتے جو اِن سے زیادہ اہم اور اِن سے زیادہ گہرے اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔ جیسے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک، صلئہ رحمی، امانتوں کی ادائیگی، حقوق کی حفاظت، کام میں تندہی، حق دار کو اس کا حق پہنچانا، مخلوقِ خدا پر اور خصوصاً کمزوروں پر ترس کھانا، یقینی حرام اشیا سے بچنا اور اس طرح کے دوسرے امور، جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مومنوں کی صفت کے طور پر بیان کیے ہیں۔ مثلاً سورئہ انفال اور المومنون کے اوائل میں اور سورئہ فرقان کے اواخر وغیرہ میں۔ ٭٭٭
 

No comments:

Post a Comment