Monday 19 November 2012

راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا۔۔۔۔۔اقبال خان منج

ماہ محرم کے عین آغاز میں جب حسینیؓ قافلے کی دھول جبینِ دل کو ہجر اور رنج و الم سے اَٹا اَٹ کر دیتی ہے اور گردشِ ماہ و سال ماہِ شبیرؓ کی اِک اِک ساعت کے سامنے دست بستہ ہو جاتی ہے۔ سفر کربلا کا غبار حق ذات کے خدوخال کو مغموم اور ریت زدہ کر دیتا ہے۔ عین اس موسم سوز میں اسرائیل نے پھر ذوق تماشا کی تسکین کے لیے نہتے فلسطینیوں پر آگ برسانا شروع کر دی ہے۔ پھر وہی اسرائیلی سانڈوں کی بدمستی اور مسلم نسل کی فصلوں کو روندنے کی جستجو اور خمار۔۔۔ پھر وہی بے اثر اور روایتی جملوں پر مشتمل مسلم امت کا کھوکھلا احتجاج اور قصر سفید کی جانب سے رعونت سے بھرپور یکطرفہ جواب اور جواز۔۔۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔۔۔ نہ سوختہ لاشوں کا نوحہ، نہ تاریخ ، نہ سبق۔۔۔ عشرت نہ عبرت۔۔۔ پھر وہی یہودی سپاہ اور امریکہ کا سالانہ مسلم کش کھیل۔۔۔ وہی صہیونی فضائیہ بے نکیل، وہ اسرائیلی ٹینک اور اس کے مقابل غلیل۔۔۔! کچھ بھی نہیں بدلا۔۔۔ ہسپتالوں، سکولوں اور فلسطینی گھروں کو راکھ کرنے کی مشق ستم اور تجدید ظلم۔۔۔ پھر وہی شاہراہوں پر احتجاجی جملوں سے مزین بینرز اور دلوں کو گرما دینے والے فقط نعرے۔۔۔ کچھ بھی نہیں بدلا، نہ احتیاج نہ احتجاج، نہ جملے نہ حملے، نہ لاشیں نہ نوحے، نہ حربے نہ تجربے۔۔۔ نہ مقتل، قاتل اور مقتول اور نہ ہی ظالم، ظلم اور مقتول۔۔۔!!ایسے حالات پر محض نوحہ لکھا جاسکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment