Sunday 14 October 2012

ملالہ یوسف زئی اور طالبان




آج کا دور جدید مواصلات

 کا دور کہلاتا ہے۔ تیز ترین مواصلاتی رابطوں نے دنیا کو ایک چھوٹے سے کوزے میں بند کرکے رکھ دیا ہے۔ مگر یہ بھی آج کے 
اجدید دور کا ہی کمال ہے کہ جھوٹ اور سچ کے درمیان امتیاز مشکل ہوگیا ہے۔ یہ بھی ایک تاثر ہی ہے کہ چوبیس گھنٹوں کی نشریات کے حامل الیکٹرانک میڈیا کی موجودگی میں اب حقائق کو چھپانا ناممکن ہے۔ لیکن حقائق کو من پسند اور نیا رخ دینا جتنا آسان ہے اتنا پہلے کبھی نہیں تھا۔ یہ زیادہ دن پہلے کی بات نہیں ہے کہ کراچی میں مرتضیٰ بھٹو کا ریاستی قتل کردیا گیا۔ مگر آج تک یہی پتا نہیں چل سکا کہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے احکامات جاری کہاں سے ہوئے تھے۔

اس کھیل کے مرکزی کردار شعیب سڈل آج بھی حکومت میں موجود ہیں اور نیک نام بھی ہیں مگر حقائق ابھی تک کہیں گم ہیں۔ عدلیہ الٹرا ایکٹو ہے مگر کچھ پتا نہیں کہ ایک اہم سیاستداں کا کیسے پولیس کے ہاتھوں ناکہ لگا کر قتل کردیا گیا۔ اس پر پیپلز پارٹی بھی خاموش ہے اور اس کے نکتہ چیں بھی دم سادھے ہوئے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کو دن دہاڑے درجنوں کیمروں کی موجودگی میں قتل کردیا گیا۔  اس کے مرکزی کردار رحمن ملک بھی ابھی زندہ ہیں اور حکومت میں شامل ہیں۔ مگر ابھی تک یہی علم نہیں ہوسکا کہ بے نظیر بھٹو کے مرگ کی وجہ کیا تھی اور ان کو گولی کہاں لگی تھی۔

یہ بھی زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ سوات میں ایک لڑکی کو طالبان کی عدالت کی جانب سے کوڑوں کی سزا جاری کرنے پر مبنی ایک ویڈیو  این جی اوز کی جانب سے ریلیز کی گئی اور اس کی ذمہ داری طالبان کے ایک ترجمان نے قبول بھی کرلی۔ بعدازاں پتا چلا کہ وہ ویڈیو ہی جعلی تھی۔نائن الیون کا واقعہ جدید دنیا کا بگ بینگ ہے۔ خود یورپ اور امریکا کے ماہرین یہ ثابت کرچکے ہیں کہ ٹوئن ٹاور سے ٹکرانے والے طیارے مسافر بردار نہیں تھے اور نہ ہی اغوا ہوئے تھے۔ یہ بڑے ڈرون تھے۔ ان مسافر بردار طیاروں کے مسافروں کے لواحقین آج تک منظر عام پر نہیں آسکے۔ مگر اس کی ذمہ داری اگلے ہی لمحے القاعدہ پر ڈالی جا چکی تھی۔
یہ طویل تمہید اس لیے باندھی ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے نہ صرف قبول کرلی ہے بلکہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر ملالہ بچ گئی تو وہ پھر اس پر حملہ کریں گے۔ اس وقت پورا پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا صرف اور صرف ملالہ یوسف زئی پر مرکوز ہے۔ اس کے حوالے سے رپورٹیں پیش کی جارہی ہیں اور مباحثے جاری ہیں۔ ہر ایک کی تان ایک ہی جگہ آکر ٹوٹتی ہے کہ یہ طالبان ظالم لوگ ہیں اور اب ان کو مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کے خاتمہ کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کا وقت آگیا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان پر بات کرنے سے پہلے ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ واقعہ سوات میں پیش آیا ہے جہاں پر مولانا صوفی محمد کے داماد مولوی فضل اللہ کا ٹھکانہ ہے۔ یہ مولوی فضل اللہ خود ایک جرائم پیشہ آدمی ہے جس نے مولانا صوفی محمد کی بیٹی کو زبردستی ان کی زندگی میں ہی یرغمال بنالیا تھا۔ اس وقت یہ افغانستان میں امریکی اور افغان حکومت کی میزبانی سے لطف اندوز ہورہا ہے اور وہیں سے یہ پاکستان میں کارروائیاں کررہا ہے۔ اس کا تحریک طالبان پاکستان سے صرف اتنا ہی تعلق ہے کہ دونوں کے آقا ایک ہیں۔ ورنہ ان کا آپس میں کوئی تنظیمی تعلق نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ ان جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کہاں کریں گے۔سوات میں ؟ جہاں پر یہ واقعہ پیش آیا۔ یہ علاقہ توپہلے سے ہی فوج کے انتظام میں ہے اور فوج کی موجودگی میں ہی یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ افغان صوبہ کنڑ میں ؟ جہاں پر مولوی فضل اللہ مقیم ہے اور اس کو امریکی افواج جتنی سیکوریٹی فراہم کی گئی ہے۔مگر وہ تو امریکی اور افغانوں کے ریاستی تحفظ میں ہے۔ طالبان کے خلاف؟  جن کو تمام تر فنڈز اور ہتھیار ان ہی ذرائع سے فراہم کیے جاتے ہیں جہاں سے بی ایل اے کو۔
پاکستان میں امریکی سفارتکاروں اور عسکری بیانات کو ملا کر پڑھیے تو صورت واضح ہونے لگتی ہے۔ اب شمالی وزیرستان میں پیش قدمی کا ارادہ ہے۔مگر وہاں کے لوگوں کا قصور کیا ہے؟ کیا ان کا بھی وہی قصور ہے جو نائن الیون کے واقعے میں پاکستان اور افغانستان کا تھا۔ یہ پورا میلہ سجایا ہی اس لیے گیا ہے کہ ڈرون حملوں پر مزاحمت کو بھول جائیے، اپنے عوام پر فوج کشی کے لیے تیار رہیے،پاکستانی عوام اور فوج کے گزشتہ بھاری جانی و مالی نقصانات کو بھول جائیے اور ایک نئی قسط کے لیے تیار ہوجائیے۔
ملالہ پر حملہ اس پورے کھیل کا جواز پیش کردیتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کرلی ہے۔ہوسکتا ہے کہ اس میں وہ شریک بھی رہے ہوں ۔ جیسا کہ میںنے شروع میں کہا کہ آج کے دور میں سچ اور جھوٹ کو ایک دوسرے کا بدل بنادیا گیا ہے۔ مگر اس سازش کے حقیقی کرداروں کو ہم اس صورت میں بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں ، جب ہم یہ دیکھ لیں کہ اس کے ذریعے وہ کرنا کیا چاہ رہے ہیں۔ابھی یہ بیانات کی صورت میں ہے اور عملی طور پر جلد ہی سامنے آجائے گا۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی اس سے خبردار رکھیے ہشیار باش۔

No comments:

Post a Comment