Sunday 21 October 2012

متحدہ مجلس عمل۔۔۔طلاق رجعی،طلاق مغلظ


متحدہ مجلس عمل… طلاقِ رجعی، طلا قِ مغلظ                                               
محمد سمیع                                                                                                             
جب متحدہ مجلس عمل کا قیام عمل میں آیا تو عوام کی جانب سے خوشگوار حیرت کا اظہار ہوا تھا، کیونکہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں عوام کا یہ ذہن بن چکا تھا کہ مذہبی سیاسی جماعتوں میں اتحاد محال ہے۔ یہ جماعتیں حکومتوں کو گرانے کے لیے سیکولر جماعتوں سے اتحاد تو کرسکتی ہیں، وطن عزیز میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے یکجا نہیں ہوسکتیں۔ اس کا ایک بار مجھے خود ایک مولانا کی گفتگو سے اندازہ ہوا تھا جو ایم آر ڈی کے زمانے میں خاصے متحرک تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ میں منصورہ میں محترم قاضی حسین احمد سے محوِ گفتگو تھا کہ انہوں نے مجھ سے ایک سوال کیا: ’’مولانا یہ بتائیں کہ آپ کا تعلق دیوبندی مکتبہ فکر سے ہے اور جماعت اسلامی کے عقائدکچھ مختلف نہیں تو ہم میں اتحاد کیوں نہیں ہوسکتا!‘‘ میں نے ازراہِ تفنن فرمایا: ’’قاضی صاحب! اگر میں اس کی اصل وجہ بتادوں تو میرا منصورہ میں آج رات کا قیام مشکل ہوجائے گا۔‘‘ قاضی صاحب کے اصرار پر انہوں نے بتایا کہ اتحاد کی تجویز پر پہلا سوال تو یہ اٹھے گا کہ اس اتحاد کا سربراہ کون ہوگا؟ ہر جماعت یہ چاہے گی کہ سربراہ اسی کا ہو، اور یہ سوال سربراہی سے لے کر نچلی سطح تک اٹھے گا۔ جب متحدہ مجلس عمل کو انتخابی نشان کتاب الاٹ ہوا تھا تو اس کے قائدین نے اپنے جلسے جلوسوں میں تقاریر کے دوران اسے قرآن مجید سے تعبیر کیا تھا۔ عوام کی جانب سے اس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھا تھا بلکہ بالعموم مثبت تاثر کا اظہار یوں ہوا تھا کہ اگر انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کی جیت ہوئی تو قرآن کے عدلِ اجتماعی کی راہ ہموار ہوگی۔ لیکن ہوا کیا؟ یہ سب ہمارے سامنے ہے۔ مختصر ترین الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کا اس سے کوئی بھلا نہ ہوا، البتہ اس کے نتیجے میں اس اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتوں میں چپقلش پیدا ہوگئی جو تاحال جاری ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل میں شامل ان دو جماعتوں کے مقابلے میں دیگر جماعتوں کی نمایاں حیثیت نہیں۔
ہم متحدہ مجلس عمل کے قائدین کے بیانات کی روشنی میں دلچسپ نتائج اخذ کرسکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں کہ قاضی حسین احمد سید منورحسن کو مجلس کا صدر بنانا چاہتے ہیں۔ ویسے اس مجلس کے، جو محبوب کی کمر کی حیثیت اختیار کرچکی ہے کہ جسے ڈھونڈنا پڑتا ہے کہ کہاں ہے، کس طرف کو ہے، کدھر ہے ، قاضی حسین احمد پہلے ہی صدر کے منصب پر فائز ہیں۔ سید منورحسن فرماتے ہیں کہ ہمیں مولانا کی شریعت اور انقلاب نہیں چاہیے جس میں وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہوں (مولانا اِس وقت بھی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں)۔ جماعت اسلامی فوجی انقلاب سے نبردآزما ہونے کا خاصا تجربہ رکھتی ہے۔ پہلا فوجی انقلاب ایوب خان نے ماہِ اکتوبر ہی میں برپا کیا تھا اور مولانا بھی متحدہ مجلس عمل میں انقلاب ماہِ اکتوبر ہی میں لانے کا اعلان کرچکے ہیں، اور اگر جماعت اسلامی اس میں شامل نہ ہو اور یہ بحال ہوجائے تو یہ مولانا کا انقلابی اقدام ہوگا۔ جماعت اسلامی نے فوجی انقلاب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔ ضیاء الحق کی کابینہ میں جماعت اسلامی کے دو سینئر اکابرین کی شرکت بھی اُس وقت موضوع گفتگو رہی تھی، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے اور جب وہ کسی اتحاد میں شامل ہوتی ہے تو اس اتحاد کے ڈسپلن کو قبول کرتے ہوئے ہر اقدام کرتی ہے۔ گیارہ جماعتی اتحاد جس نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک چلائی تھی، یہ اس کا فیصلہ تھا کہ ضیاء الحق کی کابینہ میں شمولیت اختیار کی جائے۔ سید منورحسن نے جو یہ فرمایا ہے کہ وہ مولانا کی شریعت کو نہیں مانتے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ سینیٹر مولانا عبدالحق کی طرف سے ایک شریعت بل سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں ایک شریعت محاذ کا قیام بھی عمل میں آیا تھا۔ چونکہ جماعت اسلامی اسٹریٹ فورس رکھتی ہے لہٰذا وہ اس تحریک میں پیش پیش تھی۔ اس موقع پر ہمارے ایک سینئر رہنما نے فرمایا تھا کہ ہم منصورہ برانڈ شریعت بل کو نہیں مانتے۔
گو کہ ہمارے دین میں اجتماعی شادی کا کوئی تصور نہیں، لیکن جس طرح کا بیان جمعیت علماء اسلام (س) کی طرف سے آیا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ مجلس کے ساتھ اس میں شامل جماعتوں کی اجتماعی شادی ہوئی تھی۔ ان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ہم نے تو مجلس عمل کو طلاقِ مغلظ دے دی ہے، مولانا فضل الرحمن ہمارا نام لے کر قوم اور اپنے اتحادیوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔ اب پتا نہیں اجتماعی شادی میں اگر ایک فریق طلاق دے دے تو یہ سب کی طرف سے طلاق ہوتی ہے یا نہیں۔ اگر اس کا جواب ہاں میں ہو تو مولانا فضل الرحمن کی مجلس عمل کی بحالی کے لیے بے چینی کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے طلاقِ رجعی دی ہے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ مجلس کو اغوا کرنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔
متحدہ مجلس عمل ایک انتخابی اتحاد تھا اور اس کی بحالی کے لیے کوششیں اس لیے ہورہی ہیں کہ اب الیکشن زیادہ دور نہیں۔ یہ اتحاد اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے تو تھا نہیں، ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ پرویز مشرف کے دور میں حدود آرڈیننس میں ترامیم کی کوششیں ہورہی تھیں تو مولانا فضل الرحمن صاحب کی طرف سے دھمکی آئی تھی کہ اگر ترامیم کی گئیں تو وہ استعفیٰ دے دیں گے، لیکن جب ترامیم ہوچکیں اور ان سے یہ سوال کیا گیا کہ وہ کب مستعفی ہورہے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا تھا کہ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس پر استعفیٰ دیا جائے۔ غالبؔ نے تو کہا تھا کہ ؎
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو غالبؔ
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو
لیکن ہماری کچھ مذہبی سیاسی جماعتیں دھمکیوں سے کام نکالنا چاہتی ہیں۔ لہٰذا شریعت محاذ کی جانب سے بھی یہ دھمکی آئی تھی کہ اگر 27 رمضان المبارک تک شریعت بل پاس نہ ہوا تو اس کے تمام ارکان مستعفی ہوجائیں گے۔ لیکن نہ وہ شریعت بل پاس ہوا اور نہ دھمکی پر عمل کیا گیا۔
بات یہ ہے کہ پنج پیری سلسلے کے مولانا طیب نے درست فرمایا تھا کہ مذہبی سیاسی جماعتیں کیکر کا بیج لگا کر انگور حاصل کرنا چاہتی ہیں تو جس طرح سے یہ ناممکن ہے اسی طرح انتخابی سیاست کے ذریعے ملک میں اسلامی نظام کا نفا ذ ممکن نہیں۔ہمیں مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی ہمت کی داد دینی چاہیے کہ وہ ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔جس طرح تبلیغی جماعت انقلابی جماعت نہیں بن سکتی اسی طرح مذہبی سیاسی جماعتیں انقلابی سیاست کی شاہراہ کو اختیار نہیں کرسکتیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا کہ انسان بڑا جلد بازہے۔


No comments:

Post a Comment