Thursday 18 October 2012


جماعت اسلامی کے بغیر متحدہ مجلس عمل 
(متین فکری)
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمن نے جماعت اسلامی کو الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ آتی ہے آئے، نہ آتی ہے نہ آئے ہم تو متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے ) کو بحال کرکے دم لیں گے بلکہ عملاً انہوں نے ایم ایم اے کی بحالی کا اعلان بھی کردیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے اس پر نہایت ’’خوشگوار‘‘ ردعمل کا اظہار کیا ہے اور جماعت اسلامی کے بغیر متحدہ مجلس عمل کی بحالی پر حضرت مولانا کو ’’مبارکباد‘‘ پیش کی ہے۔ ہمیں اس پر بے اختیار غالبؔ یاد آرہے ہیں۔
میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی                             
سن کر سستم ظریف نے مجھ کو اٹھادیا کہ یوں
جماعت اسلامی کا مطالبہ حضرت مولانا سے صرف اتنا تھا کہ وہ پہلے اپنی بزم ناز سے ’’غیروں‘‘ کو تو نکالیں پھر ہم بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں گے لیکن حضرت مولانا نے اس کے جواب میں ’’غیروں‘‘ سے تعلق توڑنے کی بجائے جماعت اسلامی کو ہی ایم ایم اے سے نکالنے کی ٹھان لی اور اب وہ ایم ایم اے کی مرضی اپنی بغل میں دابے فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں۔
یہ تو خیر سخن گسترانہ باتیں تھیں حقیقت یہ ہے کہ حضرت مولانا اپنے جُبہ ودستار کے ساتھ بہت عملیت پسند سیاستدان ہیں وہ اس معاملے میں دنیا داروں سے بڑھ کر دنیا داری کرنے سے نہیں چوکتے۔ ان کی ذات گرامی نے اس کی ایک نہیں کتنی ہی مثالیں قائم کی ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب متحدہ مجلس عمل قائم ہوئی تو نائن الیون کا سانحہ پیش آچکا تھا اور امریکا اس کی آڑ میں افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا اُس نے اقتدار کے حریص اور نہایت بزدل و بے غیرت فوجی حکمران جنرل(ر)  پرویز مشرف کو گانٹھ کر افغانستان پر حملے کے لیے پاکستان کو اپنا بیس بنالیا تھا۔ وہ پاکستان کے ہوئی اڈوں سے افغانستان پر تابڑ توڑ حملے کررہا تھا۔ ایسے میں ایم ایم اے نے اپنے برادر اسلامی ملک افغانستان سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے امریکا کے خلاف نہایت سخت موقف اختیار کیا۔ افغانستان پر امریکی حملوں کی شدید مذمت کی اور مشرف حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس ظلم میں امریکا کی شریک کار نہ بنے اور امریکا کے ساتھ ہر قسم کا تعاون ختم کردے۔ یہ موقف صرف ایم ایم اے کا نہیں پوری قوم کا تھا۔ چنانچہ 2002 کے عام انتخابات ہوئے تو ایم ایم اے اپنے اسی موقف کے ساتھ قوم کے پاس گئی اور انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ ایم ایم اے کی پانچ جماعتوں میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کو بنیادی اہمیت حاصل تھی اور ان کے امیدوار ہی زیادہ تعداد میں کامیاب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچے تھے اور یہ اعتراف کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ جمعیت علمائے اسلام کے کامیاب امیدواروں کا پلّہ بھاری تھا تاہم اس کا یہ مطلب ہر گز نہ تھا کہ حضرت مولانا ایم ایم اے کو یرغمال بنالیں اور اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنا شروع کردیں لیکن انہوں نے ایسا کیا اور ایم ایم اے کو فوجی حکمران کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں ان کی جماعت کا وزیر اعلیٰ تھا وہ بھی جنرل (ر) پرویز مشرف کے اشاروں پر چلتا رہا۔ اس کے عوض حضرت مولانا نے جو فوائد سمیٹے اس کی تفصیل میں جائیں تو حیرت ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی کے لیے اُسی زمانے میں ان کے ساتھ چلنا دشوار ہوگیا تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ کئی سال پہلے ارکانِ جماعت کے کل پاکستان اجتماع میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ارکانِ جماعت کا مطالبہ تھا کہ امیر جماعت مولانا فضل الرحمن کی سرگرمیوں سے لاتعلقی کا اعلان کریں اور ان کے اعمال کا وبال اپنے سر نہ لیں یہ اختلافات اتنے بڑھے کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں جماعت اسلامی کے وزیر سراج الحق جو وزیر خزانہ اور صوبائی کابینہ کے سینئر وزیر تھے بالآخر مستعفیٰ ہوگئے ۔
ایم ایم اے نے اجتماعی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی نگرانی میں 2008کے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا۔ ایم ایم اے میں شامل جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں نے اس فیصلے کی پابندی کی لیکن حضرت مولانا اس فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتخابی میدان میں کود پڑے۔ اس سے پہلے مسلم لیگ ن بھی بائیکاٹ کے فیصلے سے منحرف ہوچکی تھی اور یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر مسلم لیگ ن جمعیت علمائے اسلام سمیت پوری ایم ایم اے، تحریکِ انصاف اور قوم پرست جماعتیں (جو بلاشبہ بائیکاٹ کے فیصلے پر قائم رہیں) سب مل کر پوری قوت کے ساتھ انتخابی بائیکاٹ کی حکمت عملی پر عمل کرتیں اور میدان میں نکل کر اپنی سیاسی اہمیت منواتیں تو انتخابات سے پہلے ہی فوجی آمریت سے نجات مل سکتی تھی اور آزادنہ منصفانہ انتخابات کا انعقاد بھی ممکن تھا لیکن یہ موقع گنوا دیا گیا۔ مسلم لیگ ن سے کیا گلہ کہ وہ عالمی کھلاڑیوں کے ہاتھ میں یرغمال بنی ہوئی تھی لیکن حضرت مولانا سے تو گلہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے بھی بے اصولی کا مظاہرہ کیا اور اپنے عمامے کے بل کستے ہوئے انتخابی اکھاڑ ے میں کود گئے۔ حضرت مولانا کی خدمت میں یہ شعر عرض کرنے کو جی چاہتا ہے۔
کودا ترے آنگن میں کوئی دھم سے نہ ہوگا
وہ کام کیا ’ہم‘ نے جو رستم سے نہ ہوگا
واقعی انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ بے اصولی کا مظاہرہ کرنے کے لیے رستم سے بڑا جگرا چاہیے۔ 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں ملک میں جس قسم کی جمہوریت آئی اور جس قسم کے حکمرانوں سے پالا پڑا وہ سب کے سامنے ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ حضرت مولانا بھی اقتدار کے لالچ میں حکومت کا حصہ بن گئے اور دونوں ہاتھوں سے مادی فوائد سمیٹنے لگے اب اگرچہ حضرت مولانا نے دور اندیش کا مظاہرہ کرتے ہوئے وفاقی کابینہ سے اپنے وزیروں کو واپس بلالیا ہے اور تاثر یہ دیا ہے کہ وہ حکومت سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں لیکن قومی کشمیر کمیٹی کے چیئر مین کی حیثیت سے وہ اب بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور پارلیمنٹ میں حکومت کی بی ٹیم بنے ہوئے ہیں جس پر اپوزیشن لیڈر چودھری نثار اکثر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ اب نئے انتخابات کی آمد آمد ہے تو حضرت مولانا ایم ایم اے کو بحال کرنے کے لیے بے چین ہوگئے ہیں تاکہ وہ اس پر سوار ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچ سکیں۔ جماعت اسلامی نے ایم ایم اے کی بحالی سے اصولی اختلاف نہیں کیا اس کا مطالبہ حضرت مولانا سے صرف اتنا ہے کہ وہ پہلے اقتدار سے تو دست کش ہوں اور حکومت کی بی ٹیم بنے کی بجائے ایم ایم اے کے بنیادی مقاصد سے ہم آہنگی تو اختیار کریں پھر ہی اس کی بحالی مفید ثابت ہوسکتی ہے لیکن حضرت مولانا ایسی کوئی کمٹ منٹ کرنے کو تیار نہیں ہیں وہ ایم ایم اے کے ساتھ وہی کھیل کھیلنا چاہتے ہیں جو ماضی میں کھیلتے رہے ہیں جماعت اسلامی اس کھیل میں حصہ ڈالنے کو تیار نہیں ہے۔ بس اتنی سی بات ہے جسے حضرت مولانا نے افسانہ بنادیا ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے بغیر ایم ایم اے کا وزن کیا ہوگا لیکن اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں ہیں۔ جماعت اسلامی بھی اس بات پر مصر ہے کہ وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں۔

No comments:

Post a Comment