Wednesday 10 October 2012

ملالہ تم بے گناہ بچی تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(وسعت اللہ خان)


مینگورہ میں میرے جتنے بھی جاننے والے ہیں، کل سے اب تک ایک ایک سے فون کرکے پوچھ رہا ہوں کہ
 پاکستان پر پچھلے آٹھ برس میں جو تین سو بیس امریکی ڈرون حملے ہوئے ان میں سے کتنے وادیِ سوات پر ہوئے۔کوئی نہیں بتا رہا۔سب کہہ رہے ہیں ایک بھی نہیں ہوا۔سب مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں۔سب میرا دل رکھنے کے لیے جھوٹ بول رہے ہیں۔ یقیناً سوات میں ڈرون حملے ہوئے ہیں اور ملالہ انہی حملوں کے متاثرین کے ردِ عمل کا نشانہ بنی ہے
بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔ خواہ مخواہ کوئی کسی بچی کو کیسے نشانہ بنا سکتا ہے۔
تو پھر یقیناً ملالہ امریکیوں کی جاسوس ہے یا رہی ہوگی۔ مومن کبھی بلاثبوت بات نہیں کرتا۔ کیا آپ نے طالبان ترجمان کا یہ بیان نہیں پڑھا کہ ملالے نے ایک دفعہ کہا تھا کہ وہ اوباما کو پسند کرتی ہے۔ اس سے بڑا بھی کوئی ثبوت چاہیے ملالے کے امریکی ایجنٹ ہونے کا۔
بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔ خواہ مخواہ کوئی کسی بچی کو کیسے نشانہ بنا سکتا ہے۔
ہا ہا ہا۔۔۔۔کون کہتا ہے چودہ سال کی بچی معصوم ہوتی ہے ؟ اگر چودہ سال کا لڑکا والدین کی خوشی اور اپنی مرضی سے دین کو پورا پورا سمجھ کر باطل کو مٹانے کے لیے بلا جبر خودکش جیکٹ پہننے کا آزادانہ فیصلہ کرسکتا ہے تو ملالے کیسے ابھی تک بچی ہے ۔اگر اتنی ہی بچی ہے تو سر جھاڑ منہ پھاڑ گھر سے باہر جانے کے بجائے صحن میں گڑیوں سے کیوں نہیں کھیلتی رہی ؟ کام کاج میں والدہ کا ہاتھ کیوں نہیں بٹاتی رہی ۔
بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔ خواہ مخواہ کوئی کسی بچی کو کیسے نشانہ بنا سکتا ہے۔
کیا بچیاں اسی طرح چٹر پٹر منہ پھٹ بوتی ہیں۔ بچی ہے تو کھلونوں اور کپڑوں کی ضد کیوں نہیں کرتی۔ بس زہریلی نصابی کتابوں ، کاپی ، پنسل کی بات کیوں کرتی ہے۔ کیا ملالے کے ساتھ کی کوئی اور ہم عمر بچی بھی گلا پھاڑ پھاڑ کے جبر اور بنیادی آزادیوں جیسے پیچیدہ موضوعات پر اپنی رائے دیتی ہے اور ببانگِ دہل کبھی اس سیمینار میں تو کبھی فلاں تقریب میں تو کبھی ڈھماکی جگہ مومنوں پر کیچڑ اچھال کے غیروں سے داد اور تمغے وصول کرتی پھرتی ہے۔
بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔ خواہ مخواہ کوئی کسی بچی کو کیسے نشانہ بنا سکتا ہے۔
اور بند کرو یہ بکواس کہ پختون معاشرے میں عورتوں اور بچوں کو امان ہے۔ کوئی امان ومان نہیں ۔پختون ولی کا اسلام سے کیا لینا دینا ؟ جو بھی دین کے غلبے کی راہ میں مزاحم ہوگا خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ جو ہمارے سچے راستے کو اختیار کرنے کے بجائے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ آستین کے سانپ ہیں اور اتنی سائنس تو ہم بھی جانتے ہیں کہ سانپ پیدا ہوتے ہی تو زہریلا نہیں بن جاتا۔ تو آپ ہم سے گویا یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم سنپولیوں کو چھوڑ دیں کیونکہ وہ بچے ہوتے ہیں۔۔۔ہا ہا ہا ہا۔
بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔ خواہ مخواہ کوئی کسی بچی کو کیسے نشانہ بنا سکتا ہے۔
کیوں چیخ رہے ہیں آپ اتنا میڈیا پر ، فیس بک پر ، ٹوئٹر پر ؟ کیا آپ کی کسی بیٹی کو نشانہ بنایا گیا ؟ کیا ملالےآپ کی سگی ہے ؟ ملالے کے ہم عمر خودکش بمبار بھی تو وہیں کے ہیں جہاں کی وہ ہے۔۔۔چودہ سالہ شاہین کفر کے قلعے پر حملہ کرے تو غلط اور گمراہ اور چودہ سالہ ملالے خیالات اور تحریروں کے بارود سے مومنوں پر شب خون مارے تو ہیرو۔۔۔واہ جی واہ۔
بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔ خواہ مخواہ کوئی کسی بچی کو کیسے نشانہ بنا سکتا ہے۔
ہم یہی تو چاہتے تھے کہ ملالے کے بہانے آپ اپنی منافقت کا لبادہ اتار کر سامنے آجائیں اور ہم دیکھ سکیں کہ کون ہمارا ہے اور کون غیر۔۔مگر فکر نہ کریں ہم ملالے کی طرح آپ کی کسی بچی کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ ہم بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کو نہیں چھیڑتے۔ ہماری جنگ تو ان گڈریوں اور ان کے بچوں سے ہے جو آپ کو طالبانِ حق کی مشعل تھامنے سے روک رہے ہیں اور کفر کی تاریکیوں میں ہنکا رہے ہیں۔
بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔خواہ مخواہ کوئی کسی بچی کو کیسے نشانہ بنا سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment